احمد ندیم قاسمی

عشق میں ضبط کا یہ بھی کوئی پہلو ہو گا
جو میری آنکھ سے ٹپکا، تیرا آنسو ہو گا​

ایک پل کو تیری یاد آئے تو میں سوچتا ہوں
خوابں کے دشت میں بھٹکا ہوا آہُو ہو گا​

تُجھ کو محسوس کروں، مس نہ مگر کر پاؤں
کیا خبر تھی کہ تو اِک پیکرِ خوشبو ہو گا

​اب سمیٹا ہے تو پھر مُجھ کو ادھُورا نہ سمیٹ
زیرِ سر سنگ نہ ہو گا، میرا بازُو ہو گا​

مُجھ کو معلوم نہ تھی ہجر کی یہ رمز کہ تُو
جب میرے پاس نہ ہو گا تو ہر سُو ہو گا​

اِس توقع پہ میں اب حشر کے دن گِنتا ہوں
حشر میں، اور کوئی ہو کہ نہ ہو، تُو ہو گا

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *