پھر آج خود سے وہ ڈر گئی ھے
سنو ! محبت تو مر گئی ھے
جو ہجر کی دھوپ صحن میں تھی
وہ رفتہ رفتہ اتر گئی ھے
مرض سے ہارے طبیب سارے
کہ بات حد سے گزر گئی ھے
گواہی اپنی جو میں نے مانگی
تو ساری دنیا مکر گئی ھے
قبائے ظلمت جو چاک کر دے
کہو کہاں وہ سحر گئی ھے ؟
افشاں سحر