اپسرا گل

اپنی تہذیب کے ادوار کو مکے مارے
میں نے اک شہر کے آثار کو مکے مارے

اس کو جنگل نہیں بس صحرا ہی راس آتا ہے
ایسا مجنون جو اشجار کو مکے مارے

درد سے دوہرے سمندر نے بتایا ہے مجھے
ڈوبتے شخص نے منجدھار کو مکے مارے

بے بسی ایسی بھی دشمن کی کبھی دیکھی ہے ؟؟
کچھ نہ ہو پایا تو تلوار کو مکے مارے

جب پڑھی میں نے خبر تیری وفاداری کی
( چاے پیتے ہوئے ) اخبار کو مکے مارے

دھڑکنیں رک گئیں میری تجھے رخصت کر کے
کوئی اب اس دل_ بیزار کو مکے مارے

تو وہ یوسف ہے جسے دیکھ کے میں نے اپنی
انگلیاں موڑ کے دیوار کو مکے مارے

اپسرا گل

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *