اس لیے میری آنکھوں کی لالی نہیں جاتی
تیری یاد سے کوئی رات جو خالی نہیں جاتی
کبھی تو دائرہ وسیع تھا میری چاہتوں کا
اب تو کوئی خواہش پالی نہیں جاتی
وہی موضوع ہو کلام سخن میرا
کوئی تحریر دیکھی اس سے نرالی نہیں جاتی
کبھی ہری بھری تھیں چمن کی کھیتیاں
اک مدت سے اب تو خشک سالی نہیں جاتی
مٹ گئے سب نقش تند و تیزہواؤں میں
اک تیری تصویر ہے جو دل سے نکالی نہیں جاتی
پاوں میں میخیں ،انگاروں پر سلگتا جسم
کسی ظلم سے بھی محبت جاوداں نکالی نہیں جاتی
فزوں تر ہے میرا خیال تیرے خیال سے
اس لیے میری تم سےکوئی بات سنبھالی نہیں جاتی