جمشید اقبال

کوزے میں دریا
ڈاکٹر وحید احمد

فکری روایات کا تنقیدی مطالعہ اور مقامی فکر و شناخت کا مقدمہ دنیا کا ایک مشکل ترین موضوع ہے اور اس کا تجزیہ چھاتی کا سودا۔ خوشی اس بات کی ہے کہ اس موضوع پر پاکستان کے معتبر دانشور اور تنقیدی مفکر جمشید اقبال نے قلم اٹھایا ہے۔

موضوع کی وسعت کا اندازہ اس بات سے کیجئے کہ ان کی کتاب ’فکری روایات‘ اپنا آغاز غار کے دور سے کرتی ہے ، جب خیالات کی ترسیل اور اس کا ابلاغ الفاظ کا مرہونِ منت نہیں تھا کیونکہ زبان ابھی ایجاد نہیں ہوئی تھی۔ آڑی ترچھی لکیروں اور تصویروں سے پیغام رسانی ہوا کرتی تھی۔ مگر اس دور کے لوگ بھی فنکار اور مفکرتھے۔ حجری دور کی جمالیات اور خیالات کے امین تھے۔ پھر زبانیں ایجاد ہوئیں، فکر کے مختلف دھاروں نے الفاظ پہنے اور صدیوں کا سفر کرتے ہوئے موجودہ دور تک پہنچے۔

’فکری روایات ‘اس تمام ارتقا کا احاطہ کرتی ہے۔ وہ غار کے دور کی دانش اور فکری نشیت و فراز کو عہدِ حاضر میں لاتی ہے۔ فکر تمام روایات پر سیر حاصل بحث کرتے ہوئے وجودیت کے فلسفے پر دم لیتی ہے جو اس روایت کا آخری سب سے بڑا فلسفہ تھا۔ اگرچہ بیسویں صدی سے کوئی بڑا فلسفہ یا فکری نظام وجود میں نہیں آیا مگر یہ کتاب اس کی باقیات کو بھی مَس کرتی ہے۔

جمشید اقبال نے بڑی محنت سے اپنی تحقیق اور تنقیدی فکر کو ایک مستند دستاویز کی شکل دی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ اس میں بہت سی ایسی خوبیاں ہیں جو اسے دیگر دستاویزات سے ممتاز کرتی ہیں اور ان محاسن کا تذکرہ نہایت ضروری ہے۔

جو قارئین فکری روایات کے دلدادہ ہیں اور ان کا سنجیدہ مطالعہ کرتے ہیں وہ اس حقیقت سے اتفاق کریں گے کہ فکری موضوعات منتشر حالت میں ہیں۔جستہ جستہ و پارہ پارہ۔ اگر ایک کتاب فلسفیانہ نظریات پر مبنی ہے تو دوسری کتاب مذاہب و الہٰیات کو مضمون کرتی ہے۔ اگر آپ نے اخلاقیات کا مطالعہ کرنا ہے تو کسی اور کتاب سے رجوع کرنا ہوگا۔ مگر اس کتاب کا سب سے بڑا کمال یہ ہے کہ اس نے تمام فکری رویات کو کے نظام کو ایک ایسی دستاویز کی صورت میں یکجا کردیا ہے جو کہ ایک جان جوکھوں کا کام تھا۔ اس کارہائے نمایاں پر جمشید اقبال جتنی مبادک بھی دی جائے، کم ہے۔

فکری روایات پر زیادہ کتابیں انگریزی اور چند دیگر بڑی زبانوں میں لکھی گئی ہیں۔ اردو زبان میں ان موضوعات پر بہت زیادہ نہیں لکھا گیا۔ سبطِ حسن اور علی عباس جلالپوری جیسے دانشور فکری روایات کے کچھ پہلو قلم بند کرتے رہے ہیں۔ مگر اس کتاب نے تمام نظامہائے فکر کو کو اُردو زبان میں بیان کرکے کے دنیائے اُردو کے قارئین کو ایک انمول تحفہ پیش کیا ہے۔ اس طرح ایک طرف اُردو زبان ثروت مند ہوئی ہے تو دُوسری جانب قارئین باعلم ہوئے ہیں۔

ہم کیوں نہ اس بات کو کشادہ دلی سے تسلیم کرلیں کہ ہم زندگی کے بیشتر شعبوں میں عرب و غرب کی اجاردہ داری کے زیرِ تسلط ہیں۔ اس احساسِ کمتری کی تاریخ بہت پرانی ہے۔ برصغیر دراندازوں کی جولاں گاہ رہا ہے، یہاں بیرونی لشکر ایک تواتر سے ہماری تہذہب اور معاشرتی جڑت کو ادھیڑتے رہے ہیں۔ نیتجہ یہ ہے کہ آزادی کے بعد بھی غلامی کا ہینگ اوور دماغ چکراتا ہے۔ ہماری سیاست اور معیشت ، مذہبی مباحث، سب درآمد شدہ نظام و افکار کی پیروکار ہیں۔ صورتِ حال اس وقت شدید گھمبیر ہوتی ہے جب ہم سُوئی بھی درآمد کرتے ہیں اور تاریخ کے ساتھ افکار و شناخت بھی۔

ہر طرف بیرونِ ملک سے درآمد شدہ سوچ کی چھاپ ہے۔

یہ کتاب اس لحاظ سے منفرد ہے کہ یہ فکری روایات کی نج کاری کرتی ہے۔ فکر کو اپنی تہذیب کے آئینے میں دیکھتی ہے ، اپنے تمدن کی کسوٹی پر پرکھتی ہے۔ برصغیر کے معیارات پر حقائق کا تعین کرتی ہے۔ دوسرے لفطوں میں یہ کتاب ہماری تہذیب اور معاشرت کے فکری اعتماد کی آئینہ دار ہے۔

کتاب کی ایک اور خوبی زبان کی سلاست اور روانی ہے۔ بھاری بھرکم فلسفیانہ تراکیب کا بہت بے ساختگی سے آسان ترجمہ کرکے انہیں متن کا حصہ بنایا گیا ہے۔ فٹ نوٹس بھی صرف وہاں دیے گئے ہیں جہاں ان کی اشد ضرورت تھی۔ بین الاقوامی فکر پر مبنی کتاب ایک خوبی یہ ہوتی ہے کہ آپ روانی بس پڑھتے چلے جائیں اور آپ کی قرأت کو ٹھوکر نہ لگے۔ یہ خوبی اس کتاب کی زینت بڑھاتی ہے۔

یہ کتاب کُلیت (holistic approach) کے اصول پر لکھی گئی ہے۔ اس لئے مابعد الطبیعات کا مسئلہ ہو یا روح اور جسم کی دُوئی کا، مذہبی آفاقیت کا بیان ہو یا الحاد کی تاریخ کا ، کنفیوشس کی اخلاقیات و معاشرت کی تفصیل ہو یا بدھا کا فلسفہ عمل، حیات و ممات کا ذکر ہو یا آدابِ معاشرت کا، جمشید اقبال نے نہایت دیانت داری اور غیر جانبداری سے کلیت کے اصول پر ان تمام فکری روایات کو عالمانہ مگر crisp انداز میں قلم بند کیا ہے۔

دانش کسی تہذیب کی میراث نہیں۔ فکر پر کسی قوم کا اجارہ نہیں ۔ راج محل میں سدھارتھ جیسا فقیر پیدا ہوسکتا ہے، دریائے نیل میں بہترے ہوئے صندق میں لپٹا ہوا بچہ موسیٰ بن سکتا ہے، اور نبوت کے منصب پر سرفراز ہوسکتا ہے۔ یہ کتاب اس مروجہ خیال پر خطِ تنسیخ پھیرتی ہے کہ فکرودانش کسی خاص علاقے کا قوم کا سرمایہ ہے۔ اسی لئے اس کتاب میں اگر یونانی فلسفے اور مغربی علمیات کا بیان ہے تو ساتھ ہی ساتھ افریقہ کی آفاقیت، امریکن انڈین فلسفہ اور وسطی و لاطینی فکر پر سیر حاصل تبصرہ کیا گیا ہے۔ اگر ہندو دیومالا کی تفصیل ہے تو ساتھ ہی ساتھ سامکھیہ کے تصورات سے بھی روشناس کرایا گیا ہے۔

’فکری روایات ‘فکری نظام کی محض تدوین و تالیف نہیں بلکہ یہ کتاب قارئین کے ذوقِ مطالعہ کو مہمیز دیتی ہے۔ جمشید اقبال ایک ذمہ دار ادیب اور تنقیدی مفکر ہیں۔ وہ صاحبِ رائے ہیں۔ اس کتاب میں وہ جابجا فکری مغالطوں کی تصحیح کرتے ہیں اور اپنی رائے بہت غیر جانبدار اور بے ساختہ انداز میں پیش کرتے ہیں۔ اس سلسلے مین دو مثالیں دیکھئے:

افریقی فلسفے کے بیان میں لکھتے ہیں کہ عام طور پر علم کو طاقت کہا جاتا ہے مگر حقیقت میں طاقت کو ہی علم کا درجہ حاصل رہا ہے کیونکہ طاقت سے مُراد علمی، فکری، فنی، تخلیقی اور اخلاقی نہیں عسکری طاقت رہی ہے۔ لہٰذا دنیا میں صرف ’جس کی لاٹھی اس کی بھینس ‘ کا اصول ہی عام نہیں رہا بلکہ ’ جس کی لاٹھی ، وہی عالم‘ کا اصول بھی کارفرما رہا ہے۔ آج تک تاریخ کا بنیادی المیہ یہ رہا ہے کہ محکوم اور پسی ہوئی تہاذیب کی تاریخ ہم تک ان بیرونی حملہ آوروں کے توسط سے پہنچی ہے جو تہذیب کے نام پر ان کی زمین اور وسائل چرانے آئے تھے کیونکہ ایسی متعصب اور تشدد کا باعث بننے والی تاریخ ایک مہلک مرکزی بیانیہ یہ رہا ہے کہ حملہ آور دراصل اعلیٰ و ارفع ثقافت اور علم متعارف کرانے کے لئے حملہ کرتے ہیں۔

اسی طرح ہندوستانی فلسفہ ٔ حقیقت پر بات کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ براہمن ازم کو خداؤں کی کثرت پر یقین کرنے والا مذہبی نظام عام طور پر ان طبقات نے بتایا ہے جو اسے منفی انداز میں دیکھنا یا دکھانا چاہتے تھے۔ اس کے برعکس اگر قد آور مفکرین اور عالمی مذہبی و فلسفیانہ روایات کے ماہرین کی بات کریں تو وہ ویدک شاستروں میں لاتعداد حابوں میں ظاہر ہونے والے خدا کے تصور کو ہینو تھی ازم کہیں گے، جس کا مطلب ہے خداوں میں سے ایک پر یقین کرنا۔

میں جمشید اقبال فکروی رویات کی اشاعت پر دلی مبارک پیش کرتا ہوں۔ یہ کتاب اردوزبان میں اپنی نوعیت کی پہلی دستاویز ہے جو فکری و آگہی کے ارتقا کو مختصر مگر نہایت جامع پیرائے میں پیش کرتی ہے۔ میں جمشید اقبال کا اردو زبان کو ثروت مند کرنے پر شکریہ ادا کرتا ہوں۔

ڈاکٹر وحید احمد
اسلام آباد

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *