حمیدہ شاہین

غزل ۔۔۔۔۔۔۔۔۔ حمیدہ شاہین
اُگتے ہوئے نہ روند ، لگے مت خراب کر
تو زرد ہے تو سب کے ہَرے مت خراب کر

اپنی کڑی سے کاٹ خرابی کا سلسلہ
پہلے ہوئے نبیڑ ، نئے مت خراب کر

جو جس مقام پر ہے اُسے بے سبب نہ چھیڑ
بکھرے ہوئے سمیٹ ، پڑے مت خراب کر

چھُونے کے بھی اصول ہیں ، ہر شاخ کو نہ چھُو
چھدرے تو منتظر ہیں ، گھنے مت خراب کر

جو فطرتاً خراب ہیں ان کا تو حل نہیں
جو ٹھیک مل گئے ہیں تجھے مت خراب کر

بے لمس پھلتے پھولتے خود رَو کو مت اکھیڑ
جو بات خود بخود ہی بنے مت خراب کر

تیرے خراب کردہ بہت ہیں دلِ خراب
اتنا بھلا تو کر کہ بھلے مت خراب کر

اب سلوٹوں سمیت پہن یا سمیٹ دے
تجھ سے کہا بھی تھا کہ مجھے مت خراب کر

بے لطف زندگی بھی خرابی ہے سر بسر
واجب خرابیوں کے مزے مت خراب کر

اتنا نہ کر دراز خرابی کا سلسلہ
اک شے کو دوسری کے لیے مت خراب کر

وہ خود خراب کرنے پہ کرتا ہے مشتعل
جو روز بار بار کہے مت خراب کر

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *