تازہ غزل ۔۔۔ آپ سب کی نذر
ایسا تھوڑی ہے کہ آباد نہیں رہتا ہے
دل ترے بعد مگر شاد نہیں رہتا ہے
اپنی مرضی سے بناتا ہے دل اپنا پنجرہ
یہ کبوتر کبھی آزاد نہیں رہتا ہے
اتنی شدت سے وہ لگتا ہے مرے سینے سے
سانس لینا بھی مجھے یاد نہیں رہتا ہے
تو سکوں ساتھ لیے جاتا ہے جب جاتا ہے
ایک لمحہ بھی ترے بعد نہیں رہتا ہے
کونسا عشق لیے پھرتے ہو گلیوں گلیوں
شیریں مر جائے تو فرہاد نہیں رہتا ہے
کسی چنگیز کو غدار اگر مل جائیں
چاہے بغداد ہو بغداد نہیں رہتا ہے
تم نے جس شے کو بھی مانا ہے خدا کو مانا
کوئی تسلیم ہو ، الحاد نہیں رہتا ہے
کیسی افتاد عدالت پہ پڑی ہے خالد
چھوڑ دیں پنچھی تو صیاد نہیں رہتا ہے
خالد ندیم شانی