راحیلہ اشرف

پہلے تو مجھے اس نے مرے حال پہ چھوڑا
پھر ہجر کا سانپ آ کے مری کھال پہ چھوڑا

ہے وقت مجھے کیسے مقابل ترے لایا
یہ تیر بھلا کس نے مہ و سال پہ چھوڑا

اک زرد نشانی ہی نہ بن جاۓ قفس میں
اس واسطے پنچھی کو ہری ڈال پہ چھوڑا

عفت نہ بچے گی تو بھلا کیامیں رہوں گی
یہ فیصلہ تحفے میں ملی شال پہ چھوڑا

اک جل پری ہاتھوں سے پھسل جاتی تھی اکثر
یہ واقعہ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ صیاد نے پھر جال پہ چھوڑا

پہلے تو بھروسے نے ہرے باغ دکھاۓ
پھر آہنی خنجر جو اسی ڈھال پہ چھوڑا

میں رقص کروں درد کے عالم میں بھی کیسا
اے عشق !! یہ قصہ بھی تری تال پہ چھوڑا

راحیلہ اشرف

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *