سجاد راکب

آج تو سورج سے فرمائش کی جائے

بر ف کے شہر پہ تھوڑی تابش کی جائے

 

ایک اچھوتی سوچ ، نئے پن کی خاطر

تالابوں پہ راکھ کی بارش کی جائے

 

ذوق فزوں ہے تو معیار بھی اونچا ہو

پھول نہیں تو چاند کی خواہش کی جائے

 

وہ دن میں فرہاد کی نہر کا مل جانا

نا ممکن ہے پھر بھی کو شش کی جائے

 

انگلی سے آفاق کی لالی چھونے کی

شرط لگی ہے تو کچھ جنبش کی جائے

 

کالی نہر میں راکب سونا بہنے تک

دل کی پہلی چوٹ نگارش کی جائے

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *