فلسطین پر آصف محمود صاحب کی تازہ ترین تصنیف “فلسطین بین الاقوامی قوانین کے تناظر میں” حال ہی میں سنگِ میل پبلشرز کے زیر اھتمام شائع ہوئی ہے۔
یوں تو فلسطین اور مسئلہ فلسطین ہمیشہ سے پاکستانیوں کے دل کے بہت قریب رہے ہیں، مارچ 1940 میں مسلم لیگ کے جس اجلاس میں قراردادِ پاکستان منظور ہوئی تھی اسی میں فلسطین اور فلسطینیوں کے ساتھ اظہار یکجہتی کی قرارداد بھی منظور ہوئی تھی۔ مگر یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ فلسطین پہ اردو زبان میں سنجیدہ، ثقہ، تحقیقی لٹریچر بہت کم ہے۔ نتیجتاً “فلسطین کے موضوع پر ہمارے ہاں بہت سارا خلطِ مبحث confusion پایا جاتا ہے”۔ اس حبسِ آگہی میں آصف محمود صاحب کی یہ تصنیف یقینا تازہ ہوا کا جھونکا ہے۔ یہ کتاب ایک قانون دان کی باریک بینی، ایک محقق کی عمیق نظری، ایک تجزیہ کار کی معاملہ فہمی اور ایک صاحبِ درد کی رقتِ قلبی کے ساتھ تحریر کی گئی ہے۔
اساساً، کتاب فلسطین کے مسئلے کا بین الاقوامی قانون کے تناظر میں جائزہ لیتی ہے، اور اسرائیل کے قیام کیلیئے عالمی طاقتوں کے ہاتھوں ان قوانین کی بکھیری گئی دھجیاں سامنے لاتی ہے۔ مگر یہ کتاب اپنے عنوان میں محدود نہیں ہے بلکہ آصف صاحب نے بڑی عرق ریزی اور محنت سے مسئلہ فلسطین کو مشرق وسطی کی تاریخ، سیاسی مدوجزر، سماجی ارتقاء، اور عالمی بنیادی انسانی حقوق کی کسوٹی پہ ایک دیانت دار صراف کی طرح بے رحمی سے پرکھا ہے۔انہوں نے فلسطین کی ارضِ مقدس پہ اسرائیل کے تخمِ زھرناک کی پیوند کاری، آبیاری اور اس کے تناور درخت بننے کے عمل کو بین الاقوامی قانون، جمیعتِ اقوام(لیگ آف نیشنز) اور اقوام متحدہ کے چارٹر، قراردادوں، رپورٹوں اور سفارشات کے حوالوں سے غیر قانونی ثابت کیا ہے۔ انہوں نے مستند حوالوں سے اور بھی بہت سے مقبول مفروضوں کا موثر ابطال بھی کیا ہے۔
یہ پرمغز کتاب بین الاقوامی امور کے ہر تحقیقاتی ادارے کی لائبریری میں، ہر تجزیہ کار کی میز پر، اور ہر طالب علم کے ڈیسک پہ لازماً موجود ہونی چاہیئے۔
یہ کہ سرزمینِ فلسطین پہ ریاستِ اسرائیل کا قیام ایک سازش اور اساساً غیرقانونی void ab initio ہے، اس پہ آصف صاحب نے تفصیلا بحث کی ہے۔ سرزمین عرب سے خلافتِ عثمانیہ کے خاتمے کے بعد جمیعتِ اقوام کی طرف سے فلسطین کو برطانوی انتداب میں دینا اس سازش کی پہلی کڑی تھی۔ برطانوی انتداب کے دوران عالمی طاقتوں نے جمیعتِ اقوام کی آڑ میں فلسطین کی 95 فیصد عرب آبادی کے مفادات اور منشاء کو بالائے طاق رکھتے ہوئے عرب مخالف سیاسی، اقتصادی، سماجی، انتظامی اور نظریاتی یکطرفہ ظالمانہ فیصلوں اور غیرقانونی اقدام کے ذریعے وسیع پیمانے پہ یہودی آباد کاری کی۔ یہ عمل تمام مروجہ داخلی اور بین الاقوامی قوانین کے خلاف تھا، اور اس کے ذریعے ابادی کا تناسب تبدیل کر کے یہودی ریاست کا جواز پیدا کیا۔
اس کے بعد جب اقوامِ متحدہ نے جمیعتِ اقوام کی جگہ لی تو اس نے بھی اسی ایجنڈے کو اگے بڑھایا۔ تمام بین الاقوامی قوانین کو مسخ کرتے ہوئے 1948 میں فلسطین کو تقسیم کر کے اسرائیل کی یہودی ریاست کو عربوں اور مسلمانوں کے سینے میں خنجر کی طرح گھونپ دیا۔ یہ تقسیم ہر لحاظ سے یکطرفہ، ظالمانہ اور غیر منطقی تھی۔ فلسطین کی اکثریتی آبادی عربوں سے نہ تو کوئی مشاورت کی گئی نہ ان کے مفادات ملحوظ خاطر رکھے گئے۔ 30 سالہ برطانوی انتداب میں وسیع پیمانے پہ یہودی آباد کاری کے نتیجے میں آبادی کا تناسب تبدیل ہونے کے باوجود کے ٪66 سے زیادہ عرب ابادی، جن کے پاس تقریبا ٪94 فلسطینی اراضی کی ملکیت تھی، کو ٪42.88 اور ٪11 یہودی آبادی جن کے پاس ٪4 سے کم اراضی کی ملکیت تھی کو ٪56.47 علاقہ دے دیا گیا، اور بیت المقدس کو بین الاقوامی شہر قرار دے دیا۔
تقسیمِ فلسطین کی قرارداد 181/1948، کی حقانیت اور قانونی حیثیت پر آصف صاحب نے اقوامِ متحدہ کے چارٹر اور بین الاقوامی قانون پہ مبنی بہت مدلل سوال اٹھائے ہیں، اور اس کے تین اہم نقاط کو اجاگر کیا ہے: 1) بیت المقدس ایک بین الاقوامی شہر ہے جس پہ اسرائیل کی حاکمیت نہیں ہوگی؛ 2) فلسطین کے جو علاقے اسرائیل کو ملے ہیں وہاں کی فلسطینی ابادی کو بے دخل نہیں کیا جائے گا، اور جو عرب اپنے آبائی علاقہ چھوڑنے پہ مجبور ہوئے ہیں، انہیں دائماً وطن واپسی کا حق حاصل ہے؛ اور، 3) فلسطینیوں کا خود ارادیت ناقابل تنسیخ ہے۔ انہی تین نقاط میں مسئلہ فلسطین کا ایک ممکنہ پُرامن حل مقفوف ہے۔ گو کہ آصف صاحب نے واضح کیا ہے کہ ان کی اس کتاب میں صرف مسئلہ فلسطین کا قانونی, اور دیگر, پہلوؤں سے جائزہ لینا مقصود ہے اور اس مسئلے کا کوئی حل پیش کرنا مطمعِ نظر نہیں ہے لیکن اس کے باوجود ایک ممکنہ حل کی طرف توجہ جاتی ہے۔
اقوام متحدہ کی قرارداد 118/1948 جس کے تحت اسرائیل کا قیام عمل میں آیا تھا، وہ فلسطین میں دو خود مختار یہودی اور عرب ریاستوں کے قیام کی بات کرتی ہے۔ اس کے یک طرفہ اور عرب مخالف ہونے سے قطع نظر، اگر اس قرارداد پر متعلقہ فریق کچھ ایڈجسٹمنٹ کے ساتھ عملدرآمد پہ راضی ہو جائیں تو مسئلہ فلسطین کے مستقل اور پُرامن حل کی جانب بڑھا جا سکتا ہے، گو کہ اسرائیلی توسیع پسندی کے پیش نظر فی الحال ایسی کسی بیل کا منڈھے چڑھنا بعید القیاس لگتا ہے۔
1948, 1967, 1973 کی عرب اسرائیل جنگوں کے نتیجے میں اسرائیل نے نہ صرف بیت المقدس پہ قبضہ کرلیا بلکہ وہ دریائے اردن کے مغربی کنارے اور غزہ (تقریبا مکمل فلسطین)، گولان (شام) کی پہاڑیوں اور لبنان کے کچھ علاقے پہ بھی قابض ہو گیا۔ ان مقبوضہ علاقوں سے اس نے عربوں کو بے دخل کر کے ان کی زمینوں پہ قبضہ کر لیا اور سینکڑوں غیر قانونی یہودی بستیاں آباد کر لیں۔ اس طرح اس نے اقوامِ متحدہ کی وہ قرارداد جو اس کے قیام اور وجود کا واحد جواز ہے, کی بے دریغ خلاف ورزی کی اور اسے بری طرح پامال کر دیا ہے۔
آصف محمود صاحب نے اسرائیلی جارحیت اور اس کے نتیجے میں پیدا ہونے والی جغرافیائی، سیاسی، اقتصادی اور سماجی مشکلات پہ بھی سیر حاصل بحث کی ہے، اور ان کی غیر قانونیت پہ بین الاقوامی قوانین اور بین الاقوامی اداروں کی رپورٹوں، یادداشتوں اور قراردادوں کے علاوہ عالمی دانشوروں، بشمول یہودی اور اسرائیلی تجزیہ کاروں، کے مستند حوالے دیئے ہیں۔
مسئلہ فلسطین کا ایک اور پہلو جس پہ اس کتاب میں مستند حوالوں سے گفتگو کی گئی ہے وہ فلسطینیوں کا ناقابلِ تنسیخ حقِ خود ارادیت، حقِ واپسی اور غیر قانونی قبضہ کے خلاف مزاحمت اور مسلح جدو جہد کا حقِ ہے جسے بین الاقوامی قانون اور اقوام متحدہ کے چارٹر اور قراردادوں میں تکرار سے تسلیم کیا گیا ہے۔ غزہ میں چھ ماہ سے جاری اسرائیلی جنگ اور فلسطینی نسل کشی کے تناظر میں یہ ایک اہم نقطہ ہے۔
اصف محمود صاحب کی کتاب فلسطین کے مسئلے کو بین الاقوامی قانون کے تناظر میں دیکھنے کے ساتھ ساتھ حقوق انسانی، تاریخِ فلسطین اور مشرقَ وسطی کے سیاسی، سماجی، ثقافتی ارتقا کے مراحل کو بھی زیر بحث لاتی ہے۔ بین الاقوامی امور میں بڑی طاقتوں کا بے جا نفوذ اور اس وجہ سے بین الاقوامی اداروں کی عدم فعالیت کی طرف پسپائی ان اداروں کے قیام اور ان کے وجود کی جوازیت پہ بڑے سوال اٹھاتے ہیں۔ بین الاقوامیت کا یہ پہلو بھی آصف صاحب کی نگاہ سے اوجھل نہیں رہا۔
اس لحاظ سے یہ 161 صفحات پہ مشتمل یہ کتاب اختصار کے ساتھ بڑی جامعیت اور کثیر الجہتی کی حامل ہے۔