شاکر حسین شاکر

ساڈا چڑیاں دا چنبہ اے

کچھ دنوں سے محترم جناب شاکر حسین شاکر صاحب کی کتاب کے اس عنوان نے مجھے ماضی کے ان جزیروں کا مسافر رکھا جہاں میرے لیے تشنگی، بے قراری اور احساس محرومی کی ان گنت پگڈنڈیاں تھیں۔اس کتاب کا مطالعہ کرنے میں میرا ناسٹلجیا حائل رہا۔میں خوفزدہ تھی کہ اس کلاسک گیت کے چھوٹے سے مصرعے میں محبت،روایات کا جو جہان آباد ہے اس کی سیر شاکر صاحب کی کتاب کے توسط سے کی تو خود کو سنبھالنا بہت مشکل ہو جائے گا،مگر جس اپنائیت،خلوص اور مان کے ساتھ یہ کتاب مجھے تحفے میں دی گئی اس کا تقاضا تھا کہ میں ان خوبصورت وادیوں کی سیر کروں جہاں قدم رکھنے سے میں لرزتی تھی۔
آپ سوچ رہے ہوں گے کہ کتاب کا مطالعہ کرنے سے پہلے میں اپنی محرومیوں اور دل گرفتگی کا ذکر کیوں لے بیٹھی تو جناب!اس تبصرے کے پہلے حصے میں میں آپ کے نہاں خانہء دل میں چھپے اسی سوال کا جواب دوں گی۔دوسرے حصے میں میں بتاؤں گی کہ محترم جناب شاکر حسین شاکر کی شخصیت کے وہ کون سے گوشے ہیں جو اس کتاب کو پڑھتے ہوئے حرف حرف اس محبت کرنے والے باپ کی صداقت کی گواہی دے رہے ہیں اور تیسرے حصے میں کتاب کے مندرجات پر کچھ ناقص رائے اس سوال کے ساتھ پیش کروں گی کہ شاکر صاحب آپ نے یہ کیا کر دیا۔آئیے پہلے حصے کی طرف بڑھتے ہیں۔
“ساڈا چڑیاں دا چنبہ اے” اس عنوان سے پاکستان ٹیلی ویژن پر پنجابی میں ایک ڈرامہ اس زمانے میں نشر ہوا کرتا تھا جب میرے والد صاحب کینسر سے اپنی آخری لڑائی لڑ رہے تھے۔اس گیت کا تناظر اس ڈرامے کے توسط سے میری سمجھ میں کسی قدر آنے لگا تھا،پھر جس دل سوز انداز میں اسے گایا گیا تھا فطری طور پر وہ باپ کی کبھی نہ ختم ہونے والی محبت کے حصار میں عمر بھر رہنے کی ترغیب دیتا تھا،مگر یہاں منظر مختلف تھا۔میرے تو بابل نے اونچی اڑان بھرنے کا فیصلہ کر لیا تھا۔وہ میرے ساتھ یہ ڈرامہ شوق سے دیکھتے تھے،مگر کچھ کہتے نہ تھے۔انہیں محبت کرنا تو آتا تھا،مگر اظہار کے لیے الفاظ وہ کبھی نہ ڈھونڈ پائے۔جب میرے ساتھ بیٹھ کر وہ یہ ڈرامہ دیکھتے اور پس منظر میں “ساڈا چڑیاں دا چنبہ اے بابل اسی اڈ جانڑاں” سنتے تو میرا ہاتھ اپنے ہاتھ میں لے لیا کرتے پھر چند لمحوں بعد غیر ارادی طور پر چھوڑ بھی دیا کرتے۔میں دشتِ حیات میں شعور کی سیڑھیاں چڑھی تو مجھے محسوس ہوا شاید ابامجھے پر کٹی چڑیا سمجھتے تھے۔چڑیا بھی اس وقت تک جب تک بابل کا شفیق سایہ اور آنگن اسے میسر ہے،پھر کون جانے کوئی اس چہکار کوسنتا بھی ہے یا نہیں۔یہ ایک دور تھا جب اس گیت نے مجھے عجب طرح کی اضطراری کیفیت میں مبتلا کیا۔پھر15 _2014ء میں کوک سٹوڈیو نے اسی گیت کو انور مقصود کی زبانی باپ کے نام لکھے گئے بیٹی کے خط کی قرآت کے ساتھ نشر کیا تو جیسے بابل سے کہنے والی وہ تمام باتیں جو دل کے کسی گوشے میں دبی تھیں یکدم ایک محرومی بن کر مضطرب کرنے لگیں۔
میں خوفزدہ تھی کہ شاکر حسین شاکر صاحب کی تحریر کردہ یہ کتاب مجھے ایسا ہی مضطرب اور بے چین کر دے گی،مگر معاملہ اس کے برعکس ہوا۔شاکر صاحب محض عنیزہ سے کہاں مخاطب تھے انہوں نے اپنے الفاظ کے ذریعے نہ جانے کتنی مرتبہ میرے سر پر یوں دست شفقت رکھا جیسے کہہ رہے ہوں کہ تم بھی میری بیٹی ہو۔یہ احساس شاید تقویت نہ پاتا اگر محض شاکر صاحب کی اس کتاب کا مطالعہ کیا ہوتا۔میں انہیں برسوں سے جانتی ہوں میرے ساتھ ان کا برتاؤ عام لوگوں جیسا ہرگز نہیں۔اس منفرد رویے کا سبب میں اپنی معذوری کو نہیں گردانتی بلکہ پورے وثوق کے ساتھ یہ کہہ سکتی ہوں کہ شاکر صاحب کا شمار ملتان کے ان معدودے چند پڑھے لکھے افراد میں ہوتا ہے جنہوں نے شاہدہ رسول سے محبت کی کسی نابینا لڑکی سے ہمدردی نہیں۔اس لیے اس کتاب کا حرف حرف میرے زخموں پر مرہم کا کام کرتا رہا۔شاکر صاحب جب کہتے ہیں کہ انہیں ہر بیٹی عنیزہ لگتی ہے تو ممکن ہے بہت سے لوگ اسے محض الفاظ کا گورکھ دھندہ سمجھتے ہوں،مگر میں گواہ ہوں کہ شاکر صاحب کو ہر بیٹی عنیزہ ہی لگتی ہے۔اس کا جواز میرے پاس یہ ہے کہ ایک دن شاکر صاحب نے مجھ سے کسی کی سفارش کی۔ میں نے اس کے حوالے سے اپنے ایک ذاتی تجربے کا ذکر کیا اور کہا “شاکر بھائی اگر آپ اب بھی سمجھتے ہیں کہ یہ کام درست ہے تو میں آپ کی راہ میں رکاوٹ نہیں بنوں گی.”انہوں نے نہایت دردمندی سے کہا”نہیں نہیں بیٹیوں کا مستقبل محفوظ ہاتھوں میں ہونا چاہئیے.”اس تجربے کے بعد جب میں نے یہ کتاب پڑھی تو یقین ہوا کہ وہ صرف عنیزہ کے باپ نہیں بلکہ ان کا دل ہر بیٹی کے لیے دھڑکتا ہے۔مجھے ذاتی طور پر محترم جناب امجد اسلام امجد کے کئی جملے اس محرومی کا ازالہ محسوس ہوتے ہیں جو باپ کے دنیا سے رخصت ہو جانے کے بعد میرے حصے میں آئی تھی۔ مثلاً وہ کہا کرتے تھے کہ باپ کے لیے سب سے زیادہ تکلیف دہ مرحلہ اپنی بیٹی کی آنکھوں میں آنسو دیکھنا ہے اور پھر عملی طور پر میری ہر تکلیف کا مداوا کرنے کے لیے کمر بستہ رہے۔اسی طرح شاکر حسین شاکر صاحب بھی میرے ٹیلیفون کی پہلی گھنٹی پر لبیک کہتے ہیں۔ایک لڑکی کے لیے مرد کے دو روپ محبت کے مستحق ہوتے ہیں۔باپ اور رفیقِ سفر۔ ان دونوں حیثیتوں میں ہی شاید مرد عورت کو تحفظ دیتا ہے۔شاکر صاحب خود کو میرا بڑا بھائی کہتے ہیں،مگر میں نے ان کی محبت میں ہمیشہ پدرانہ شفقت تلاش کی ہے۔
اب کتاب کی طرف آئیے۔اسے خوبصورت روایات کا ایک جہان کہیئے،عنیزہ کے نام ایک خط کہیئے یا ایک شخص کے اپنی بیٹی کے لیے جذبات کا اظہار ہر حوالے سے یہ تاریخ ادب اردو میں ایک خوبصورت باب کا اضافہ ہے۔کتاب پڑھتے جائیے کہیں باپ کا بیٹی سے مکالمہ آپ کو مسحور کرنے لگتا ہے تو کہیں ایک متفکر اور مدبر باپ اپنے خیالات کی رو میں بہہ کر غیر محسوس طریقے سے بیٹی سے الگ ہو کر پورے معاشرے سے مکالمہ کرتا دکھائی دیتا ہے۔شاکر صاحب کا بس نہیں چلتا کہ دنیا کے ہر مرد کے دل کو کھول کر اس میں بیٹی کی محبت انڈیل دیں۔یہ کتاب عنیزہ کی پیدائش سے عملی زندگی میں قدم رکھنے کی کہانی بھی ہے اور اس ادبی ذخیرے سے واقفیت بھی جو بیٹی کی محبت میں تخلیق کیا گیا۔اس کا مسحور کن عنوان عنیزہ فاطمہ کا نام ہے جو مصنف اور اس کی نو مولود کا رابطہ رسالت مآب صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے ٹوٹنے نہیں دیتا۔
اس کتاب کا وہ باب جس میں عنیزہ کے خوف کی کہانی ہے میں نے جس رات فیس بک پر پڑھا تھا وہ امجد اسلام امجد صاحب کی اس دنیا میں آخری رات تھی۔شاکر صاحب کی پوسٹ پر تبصرہ کرنے کے بعد میں نے کئی بار سوچا کہ وہ کمنٹ ڈیلیٹ کر دوں،اگر امجد صاحب نے دیکھ لیا تو میری تکلیف سے بے چین ہو جائیں گے،مگر میں ایسا نہ کر سکی۔کل رات اس باب کو دوبارہ پڑھا تو ان گنت نئے معانی کھلے حیرت انگیز طور پر اس کتاب کے حرف حرف میں مجھے حبہ عثمان بولتی چہکتی محسوس ہوئی کہ حیدر اور حبہ میرے بچے نہ سہی،مگر میرے سانس کی کونسی وہ ڈور ہے جس سے یہ دونوں نہیں جڑے۔سو اس کتاب کے مطالعے سے پہلے میں جس خوف میں مبتلا تھی مطالعے کے بعد اس سے نجات ملی اور میں خود کو معتبر محسوس کرنے لگی۔اس کتاب کی تعریف لکھنے بیٹھوں تو ایک نئی کتاب وجود میں آ سکتی ہے اس لیے میں اتنا کہنے پر اکتفا کروں گی کہ شاکر صاحب آپ کو اس شاندار تخلیق پر بہت بہت مبارکباد۔
ڈاکٹر شاہدہ رسول

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *