غزل
وُہ ثمر تھا میری دُعاؤں کا اُسے کس نے اپنا بنا لیا
مِری آنکھ کس نےاُجاڑ دی ، مِرا خواب کس نےچُرا لیا
تجھے کیا بتائیں کہ دِلنشیں، تِرے عشق میں تِری یاد میں
کبھی گفتگو رہی پھول سے، کبھی چاند چھت پہ بُلا لیا
مِری جنگ کی وہی جیت تھی، مِری فتح کا وہی جشن تھا
میں گِرا تو دوڑ کے اُس نے جب مجھے بازوؤں میں اٹھا لیا
مجھے پہلے پہلے جو دیکھ کر تِرا حال تھا ، مجھے یاد ہے
کبھی جل گئیں تِری روٹیاں، کبھی ہاتھ تو نے جلا لیا
مِری چاند چھونے کی حسرتیں، مِری خوشبو ہونے کی خواہشیں
تُو ملا تو دِل کو یقیں ہُوا، مجھے جو طلب تھی وہ پا لیا
مِرے دُشمنوں کی نظر میں بھی مِرا قد بڑا ہی رہا سدا
مِری ماں کی پیاری دُعاؤں نے مجھے ذِلّتوں سے بچا لیا
مِری ڈائری ، مِری شاعری جو پڑھی تو پڑھتے ہی رو پڑی
مِرے پاس آ کے کہا مجھے , بڑا روگ تُو نے لگا لیا
نہ مفاد کوئی نہ مشورہ, کہ یہ بات دِل کی ہے نیّرا
جہاں اُس کا حکم ہُوا مجھے وہیں میں نے سر کو جُھکا لیا
شہباز نیّر
رحیم یار خان