+-+-+-+- تازہ غزل -+-+-+-+
کچھ بھی ہو محبت کے طرف دار رہے ہیں
اس واسطے ہم سب کے گنہ گار رہے ہیں
ہےایسی کشش تجھ میں مری کاغذی دنیا
منکر تھے مگر تیرے طلب گار رہے ہیں
یہ رکھ کے ذرا ہاتھ مجھے دل پہ بتا دے
تیرے جو نہیں کس کے وفا دار رہے ہیں
تخلیق کیے جن کی ذہانت نے اندھیرے
ایسے بھی زمانے میں قلم کار رہے ہیں
دنیا ہمیں ایسے تو نہ اب خود سے جدا کر
اک عمر تلک تیرے پرستار رہے ہیں
جانا ہے تو جا کوئی گلہ تجھ سے نہیں ہے
ہم دل سے کہاں تیرے طلب گار رہے ہیں
سر کو نہ جھکایا کبھی زر دار کے آگے
اس درجہ زمانے میں وضع دار رہے ہیں
تابشِ ہو میسر جنہیں پیڑوں کی رفاقت
وہ دھوپ میں بھی صورت دیوار رہے ہیں
شہزاد تابشِ
لاھور
پاکستان