“ڈاکٹر اسلم انصاری شخصیت اور فن “ پر حرف آغاز سے پہلے جناب اسلم انصاری کے شعری اسلوب کی اولین پہچان قرار دی جانے والی غزل کے چند اشعار ذہنوں پر دستک دینے کے لیے ملاحظہ کر لیجیے اور اگر ممکن ہو تو غلام عباس کی منفرد آواز میں اس انمول شاعری کا آہنگ محسوس کرتے ہوئے اس دور کو یاد کیجیے جب شعری اسلوب میں ایسا رویہ ایک جمالیات پرست تخلیق کار نے اپنایاہوگا تو وہ دور کیسا ہوگا۔۔۔۔۔۔؎
”میں نے روکا بھی نہیں اور وہ ٹھہرا بھی نہیں
حادثہ کیا تھا جسے دل نے بھلایا بھی نہیں
جانے والوں کو کہاں روک سکا ہے کوئی
تم چلے ہو تو کوئی روکنے والا بھی نہیں
کون سا موڑ ہے کیوں پاؤں پکڑتی ہے زمین
اس کی بستی بھی نہیں کوئی پکارا بھی نہیں“ ۔۔
محترم احباب ۔۔۔ اس کتاب کی اہم ترین خوبی جو قاری کی ساری توجہ ، اپنی جانب کھینچ کر اسے ،حرف بہ حرف پڑھنے پر مجبور کرتی ہے وہ دو بڑی ادبی شخصیات کا اسلوب ہے ۔بطور تجزیہ نگار تنقید نگار ڈاکٹر انوار احمدصاحب کی اعلی تخلیقی و تنقید ی بصیرت کی وسعت اور رنگینی بیان اور بطور تخلیق کار جناب اسلم انصاری کی شخصیت کے رموز و اسرار ان کی سرائیکی خطے کے لیے بیش بہا علمی و ادبی خدمات ،
ماضی کے شیشوں پر سے گرد صاف کرتا ہوا انداز ۔۔۔۔ کاٹ دار ،سخن شناس ہونا اور اس پر اپنے قلم کی گلکاری سے کچھ اس انداز میں توصیف کرنا کہ بے ساختہ یہ سوچنے کو من چاہے کہ یہ بات ایسے کیوں کہی گئی ؟جناب انوار احمدصاحب کا ہی خاصہ ہے ،کیمبرج میں اقبال کے استاد ڈاکٹر میک ٹیگرٹ کا ایک جملہ ہے کہ لامتناہی یعنی infinite جب اپنے آپ کو متناہی یعنی finite دنیا میں ظاہر کرنا چاہتا ہے تو وہ خود کو متناہی کی terms میں ہی ظاہر کرتا ہے اور بقول سارتر” بے حد عمیق ادب کسی کو بھی پوری طرح سمجھ میں نہیں آسکتا۔۔”۔حتی کہ خود مصنف کو بھی نہیں ” بیش بہا گفتگو کے بعد ،ڈاکٹراسلم انصاری کی شخصیت و فن پر مبنی کتاب کے حوالے سے انوار صاحب لکھتے ہیں ۔۔۔۔
”یہ کام اکادمی ادبیات پاکستان کے لیے کیا گیا مگر اس کی اشاعت میں ایک کے بعد ایک اڑچن پیدا ہوتی گئی اس لیے کتاب نگر ملتان کے شاکر حسین شاکر کو دے رہا ہوں کہ یہ ملتان کے ایک بڑے آدمی سے متعلق ایک تہذیبی امانت ہے “
ڈاکٹر انوار احمد نے اس کتاب میں تخیل کے لامتناہی اور تجربہ حیات کے متناہی سلسلوں کو اسلم انصاری صاحب کی ہمہ جہت شخصیت کے ساتھ اس معنی آفرینی اور مضمون آفرینی کے ساتھ بیان کیا ہے کہ واقعی یہ کتاب ایک تہذیبی سرمایہ بن گئی ہے ،جناب شاکر حسین شاکر کے کتاب نگر نے نہایت مناسب قیمت یعنی ،صرف 400روپے رکھتے ہوئے یہ تحفہ ادب اہل ذوق اور اردو ادب کے طالب علموں کے لیے نہایت نفیس انداز میں شائع کیا ہے ۔۔۔۔شکریہ جناب محترم انوار احمد صاحب آپ نے یہ بیش قیمت کتاب عنایت کی ۔۔۔۔۔بے حد ممنون ہوں
اس کتاب کے سرورق کو دیکھتے ہی زمانہ طالب علمی کی ایک خوب صورت یاد ماضی کی دھند میں روشنی بن کر ذہن و دل میں اتر آئی، سند کے طور پر وہ سرٹیفیکٹ بھی شئیر کر رہی ہوں جب خانیوال گرلز کالج میں مطالعہ پاکستان کی ہماری پیاری نرم خو استاد میڈم نغمہ پروین نے ہمیں علامہ اقبال کوئز کی کتاب تھما دی اور کہا اچھے سٹوڈنٹ فرسٹ ائیر میں ہی فرسٹ پرائز حاصل کرلیتے ہیں سو ہم نے بھی سعادت مندی دکھائی ۔پوری کتاب یاد کی تحریری و تقریر ی مقابلہ جات کے لیے اپنی ٹیم کے ساتھ ملتان روانہ ہوئے کوئز مقابلے میں یاداشت کا کڑا امتحان تھا مگر جیت لیا۔مہمان خصوصی جناب اسلم انصاری تھے ۔اس مقابلے میں پہلا انعام نیشنل سنٹر ملتان جناب اسلم انصاری کے دست خاص میں نے حاصل کیا ۔اقبالیات پر انٹر کالجییٹ طلبہ و طالبات میں پہلا انعام ۔۔ایک ناقابل بیان خوشی ۔اس وقت طبعیات و مابعد الطبعیات میٹافزکس کے حوالے سے جناب اسلم انصاری کی گفتگو اور اشعار بھی سنے تھے،جو اس وقت ہمارے لیے اعزاز و انعام تو تھے ہی مگر اس میں چھپے فلسفے کو سمجھنے میں زمانے لگے ۔آج آپ کی اس کتاب نے بہت سے فکری گوشے آسان کردئیے ۔۔۔آپ دونوں خطہ ملتان کا اعزاز و افتخار ہیں ۔۔۔۔۔چند دل چسپ ،منتخب سطور احباب کے لیے۔۔۔۔۔۔باقی یہ انداز بیاں کے حوالے سے ، منفرد تحقیقی و تنقیدی کتاب خود کتاب نگر ملتان سے خرید کر ضرور پڑھیے گا ۔۔۔۔۔انوار احمدصاحب لکھتے ہیں۔۔۔۔۔
۔۔”ایک بہت بڑے آدمی پر لکھتے ہوئے احساس کمتری رہا کہ میں نے ابھی تک ایک ہی شادی کی ہے “۔۔۔”
“آمریت کے دور کے تناظر میں اسلم انصاری ہمیں کسی قدر ڈرپوک دکھائی دیتے جو سیاسی خیالات کی تہمت سے بچنے کے لیے خود کو جمالیات پسند کہتے تھے ۔۔۔سو ہمارے جیسے چند دوستوں نے انہیں ملے بغیر پڑھے بغیر یہ گمان کر رکھا تھا کہ اسلم انصاری ملتان کی نسبت پر شرمسار یا معذرت خواہ رہتے ہیں ۔۔۔۔وہ صاحب مطالعہ تو تھے مگر اب انہوں نے پڑھنا کم کردیا ہے ۔۔وہ ہر خوب صورت چہرے کو اپنی جانب متوجہ کرلیتے ہیں جو ظاہر ہے کہ نوجوانوں کے لیے تکلیف کا موجب تھا “۔۔۔۔۔۔”
“بہر طور ایک جمالیات پرست تخلیق کار سے زاہد خشک کی زندگی کی توقع نہیں کی جاسکتی ۔۔جو معاشرے اپنے قلم کاروں اور تخلیقی و تہذیبی دنیا کے تزئین کاروں سے محبت کرتے ہیں وہ ان کی نجی زندگی کی ایک دو لغزشوں کے پردہ دار ہوتے ہیں” ۔
آخر میں
۔۔۔جناب اسلم انصاری کا ایک دل سوز شعراحباب کے لیے
”زینہ زینہ وقت کی تہ میں اتر جائیں گے ہم
ایک دن یہ قلزم خوں پار کر جائیں گے ہم
محترم احباب!!!سرمایہ علم و ادب جناب ڈاکٹر اسلم انصاری جنت مقیم ہوئے، ان سے زمانہ طالب علمی میں انعامات کے سرٹیفکیٹ وصول کرتے ہوئے ،ان کی کتب پر تبصرہ لکھنے کی جسارت کرتے ہوئے ، ان کی گفتگو سے فیض یاب ہوتے ہوئے، ہمیشہ خود کو خوش نصیب سمجھا ۔آج ایک عہد، ایک باب تخلیق و تحقیق بند ہوا، ملتان کی علمی ادبی فضا سوگوارہے،ماہ و سال گزرتے ہوئے پرانی تحریر کو اس وقت غم تازہ کردیا کرتے ہیں جب اس سے وابستہ ہستی، مقام ابدی کی جانب روانہ ہوجائے ،رب ان کی منزلیں آسان کرے ۔آمین ثمہ آمین
صائمہ نورین بخاری ۔۔۔۔۔ملتان