میر ، ناصر کاظمی اور ڈاکٹر ابرار عمر
مختصر متوازی مطالعہ
نقد و نظر : فرحت عباس شاہ
ایک بات تو اب طے ہے کہ برصغیر کے تعلیمی اداروں میں پڑھایا جانے والا ادب اور پڑھاۓ جانے کا طریقہءکار وضع کرنے والا طبقہ دراصل حقیقی اعلیٰ ادب کو چھپانے اور کمزور و مصنوعی ادب کو مسلط کرکے لوگوں سے تجزیاتی فکر کی قابلیت چھین کر لکیر کے فقیر بنانے کے ایجنڈے پر عمل درآمد میں ہی لگا ہوا ہے ۔ یہ ماہرین و مدرسین ِ تعلیم انسانوں کو مقتدر طبقے اور سرمایہ دارانہ نظام کی غلامی پر راضی رکھنے کے لیے ذہن سازی کرنے کے جرم میں براہ راست ملوث ہیں ۔ جس کا ثبوت فورٹ ولیم کالج کی بناٸی گٸی پالیسی اور دی گٸی ڈاٸریکشن کا آج تک لاگو ہوتے چلے آنا ہے اور ہمارے اورٸینٹل کالج پنجاب یونیورسٹی سے لیکر ملک بھر کے دیگر تعلیمی اداروں کا فورٹ ولیم کالج کی طرف سے کھینچی گٸی لکیر پر من و عن عمل کرنے کا وطیرہ وہ زہر ہلاہل ہے جس کے زریعے حقیقی بڑے ادب اور ادیب کی سماج پر اثر انداز ہونے اور اسے انسانی اوصاف سے متصف کرنے کی تاثیر و برکت کا قتل کیا جاتا ہے ۔ تعلیم کے شعبے سے وابستہ لوگوں نے جس طرح میر تقی میر سے لیکر حالی تک اور اکبر الہ آبادی تک یا پھر ن م راشد ، میرا جی اور مجید امجد پر بریک لگاٸی ہوٸی ہے یا اس کے بعد انتہاٸی کمزور بلکہ مفلوج الفکر ادباء کو نصاب میں شامل کیا ہے اس بات کا دوسرا واضح ثبوت ہے کہ برصغیر میں تعلیم کے نام پر تعلیم سے دور رکھنے کی پروگرامنگ کی گٸی تھی اور کی جا رہی ہے ۔
ادراکی تنقیدی دبستان صدیوں پہلے فورٹ ولیم کالج کے قیام کے بعد سے اب تک کے تاج ِ برطانیہ کے پالیسی سازوں کی طرف سے مشرقی نظام تعلیم ، تہذیبی ورثے اور سماجی اقدار کے خلاف اٹھاۓ گٸے اقدامات کا تجزیہ اور اس کے نقصانات کے شعور پر آج کے ادیب اور قاری کو اعتماد میں لے کر علمی مغالطوں کو دور کرکے فکری مظالم کے ازالے کی ذمہ داری پوری کرنے کے ایک طاقتور تھیوری کے طور پر سامنے آیا ہے ۔ جس کا مقصد حقیقی علم ، تہذیب اور ادب کی بازیافت بھی ہے اور اس حوالے سے دعوت ِ فکر دے کر آگہی کی شمع روشن کرنا بھی ہے کہ ہمیں ادب کے استاد کے بھیس میں موجود فرنگی کارندوں پر بطور شاگرد ایمان لانے کی بجاۓ ان کی شخصیات ، کردار اور قابلیت کا تجزیہ کرتے رہنا ہے ۔ ازراہ کرم برس ہا برس سے جمود کے شکار نصاب پر سوال اٹھانے کے ضمن میں گزرے ہوٸے شعراء کے ساتھ بعد میں آنے والے شعراء کے موازنے کو تدریسیوں کے ٹھہراۓ گٸے خداٸے سخن اور انبیاٸے کلام کی تحقیر ہرگز نہ سمجھا جاۓ بلکہ رب تعالیٰ کے بناۓ ہوۓ نظام قدرت کی خصوصیت کی یادہانی سمجھی جاۓ کہ کارخانہ قدرت میں بڑے شعراء کے پیدا ہونے پر پابندی لگانے کی اطلاع کبھی بھی اور کہیں بھی نہیں دی گٸی ۔ یہ محض ملازمت مزاج کھوکھلے مدرسین کا احساس کمتری ہے جسے وہ برس ہا برس سے اپنے شاگردوں اور اگلے مدرسین میں منتقل کرتے آ رہے ہیں ۔
یہ قضیہ یہاں اس لیے پیش کرنا ضروری تھا کہ میں جس شاعر کے کلام کا ادراکی جاٸزہ لینے جا رہا ہوں اس کا تقاضا ہے کہ اس سیاق سباق کو بیان کیا جاۓ ۔ ڈاکٹر ابرار عمر کا شمار ایسے ہی چند اعلیٰ فطری شعراء میں ہوتا ہے جنہوں نے شعر و ادب کو کسی خارجی مہیج کی وجہ سے نہیں اپنایا بلکہ باطنی انگیخت ، تحرک ، میلان اور دباٶ کے باعث اس کے آگے سرنڈر کیا ہے ۔
کسی مصنوعی اور حقیقی تخلیق کار کے درمیان فرق واضح کرنے کے لیے دوباتیں بہت اہم ہیں ۔ ایک یہ کہ ایک تو حقیقی تخلیق کار خود اپنے دل کے ہاتھوں مجبور ہو کر تخلیقی عمل پر مجبور ہوگا دوسرا وہ اپنے تخلیقی عمل میں مخلص اور بےلوث ہوگا جبکہ مصنوعی ادیب کسی دنیاوی ٹارگٹ کو پورا کرنے کے لیے زور لگا کر اور شعوری کوشش کرکے کچھ نہ کچھ لکھنے کی کوشش کرے گا۔ یا پھر ماحول کی زد میں آ گے مارا جاۓ گا۔
ڈاکٹر ابرار عمر جس طرح شعر کی دیوی کی محبت میں اپنی ذات کے اندر بنتے بگڑتے صحراوں اور آباد ہوتے اجڑتے شہروں میں دیوانہ وار دوڑا ہے اس کی نظمیں اور غزلیں اس کے ایک ایک پل کی واردات کا پتہ دیتی ہیں ۔
اگر مجھے اس کی شاعری کے مختصر ترین تعارف کے لیے ایک جملہ بولنا پڑے تو میں بلا جھجھک اسے انتہاٸی کرب ( agony ) کا شاعر قرار دوں گا ۔ اس کی ساری شاعری کسی لامتناہی دکھ کی بنیاد پر کھڑی ہے ۔ عمل تخلیق کے بارے میرا بنیادی نکتہ نظر یہ ہے کہ عمل تخلیق کی بنیادی اکاٸی المیہ ہے ۔ اگرچہ فنون لطیفہ کے مظاہر میں طربیہ کا کُلی انکار نہیں کیا جاسکتا لیکن طربیہ کی نسبت المیہ کے زیادہ گہرا ، وسیع و عریض اور موٸثر ہونے پر تمام اہل ِ علم و دانش متفق ہیں ۔ ڈاکٹر ابرار عمر کی دوسری صفت اس کے ارتقاء کا فطری ہونا بھی ہے ۔ اس نے میری طرح کسی استاد کی شاگردی کیے بغیر فطرت کو استاد بنا کے مطالعے اور ماحول سے زیادہ سیکھا ہے ۔ یہی وجہ ہے کہ اس کی شاعری جنگلی پودوں کی طرح بغیر کتر بیونت یا تراخ خراش کے قدرتی انداز میں آگے بڑھی ہے ۔ شاعر کو اس کا سب سے بڑا فاٸدہ یہ ہوا ہے کہ اس کی شاعری میں اکتساب سے زیاددہ انجذاب کی کیفیت اپنی مہک دیتی نظر آتی ہے ۔ ایسا بھی نہیں کہ وہ شعری معاٸب و محاسن یا فنی قواٸد و ضوابط اور اسرار و رموز سے ناواقف ہے بالکل ایسا ہرگز نہیں وہ ایک ماہر فن کی طرح غزل ، نظم اور نثری نظم کی شعری تکنیک پر پوری گرفت رکھتا ہے ۔ بس فرق اتنا ہے کہ اس نے اس کسب ِفن کو تخلیقی عمل پر غالب نہیں آنے دیا ۔
یہ ایک بہت حسین بات ہے کہ کسی شاعر کا عشق ومحبت کے لازوال جذبے اور ہجروفراق کی بے مثال کیفیات سے آغاز ہو ۔ کیونکہ ان جذبات سے ہر خوش نصیب انسان کو ضرور گزرنا پڑتا ہے ۔ یہ بہت بڑی عطاء ہے کہ کوٸی ان جذبوں اور کیفیات کو شعر کرنے کی صلاحیت سے نوازا گیا ہو ۔ میں کٸی دوسرے بڑے اہل دانش کی اس بات سے متفق ہوں کہ ادب کا سب سے بڑا موضوع محبت ہے لیکن اختلاف یہ ہے کہ جنگ کے دنوں میں بھوک ، غلبے اور ہلاکتوں سے نظر چراء کر صرف محبت کو موضوع بناۓ رکھنا باقاعدہ جرم ہے ۔
ڈاکٹر ابرار عمر 90 کی دہاٸی کے شاعر ہیں ۔ ان کا پہلا مجموعہءکلام ، ” دسمبر اب بھی تیرا منتظر ہے “ 1998 میں شاٸع ہوا ، دوسرا شعری مجموعہ ، ” خیالوں میں تمہاری آنکھوں “ 1998 میں شاٸع ہوا ، تیسرا شعری مجموعہ ، ” میرے واٸلن کی تاروں میں “ 2001 میں شاٸع ہوا ، چوتھا شعری مجموعہ ، ” محبت فاصلوں کی قید میں ہے “ 2002 میں اور پانچواں شعری مجموعہ ، ” یہ جو تنہاٸی ہے “ 2003 میں شاٸع ہوٸی ۔ یہ تمام شعری مجموعے ، غزلوں ، آزاد نظموں اور نثر نظموں پر مشتمل ہیں البتہ ابرار عمر کا چھٹا شعری مجموعہ ، ”دوسری بارش “2004 میں شاٸع ہوا جو ایک طویل غزل پر مشتمل ہے ۔ ناصر کاظمی کے شعری مجموعے ، ” پہلی بارش “ کے تتبع میں لکھا گیا یہ شعری مجموعہ جہاں ڈاکٹر ابرار عمر کے پچھلے تمام شعری مجموعوں سے مختلف ہے وہاں ڈاکٹر ابرار عمر کو میر تقی میرے اور ناصر کاظمی کے شعری شجرے سے منسوب بھی کرتا ہے ۔ اس شعری مجموعے کی وساطت سے ڈاکٹر ابرار عمر نہ صرف ناصر کاظمی اور میر کے ساتھ سمبندھ میں آ گٸے ہیں بلکہ جدید طرز احساس ، تمثیل نگاری ، تشبیہاتی و استعاراتی نظام اور موضوعات کے تنوع کی بنیاد پر جدت ، وسعت ِ احساس ، رفعت خیال اور اثرپذیری میں ان دونوں سے مختلف مقام پر کھڑے بھی نظر آتے ہیں ۔ ہوسکتا ہے میرا یہ جملہ کہ ڈاکٹر ابرار عمر کٸی لحاظ سے میر تقی میر اور ناصر کاظمی سے مختلف نظر آتے ہیں کٸی قارٸین کو ناگوار گزرے جس کی وجہ فورٹ ولیم کالج کی نسل در نسل چلتی برانچز کی ذہن سازی ہے جس میں یہ بات اذاہان پر نقش کردی گٸی ہے کہ اب میر، غالب ، اقبال کے پاۓ کے شاعر پیدا ہی نہیں ہوسکتے نا ہم پیدا ہونے دیں گے ۔ حالانکہ کلاسیکی غزل میں فراز ان سب سے بہت بلند کھڑا ہے لیکن ظاہر ہے جو بھی شاعر حکمران طبقے کے ظالمانہ تسلط کو چیلنج کرے گا اسے ہر سطح پر قتل کرنے کی کوشش کی جاۓ گی اور ادب کی سب سے کنٹرولڈ قتل گاہ اردو زبان و ادب کے ادارے ثابت ہوتے آۓ ہیں جن میں بیٹھے تارے مسیح اپنا فرض ادا کرنے کے لیے ہمہ وقت صلیبیں اپنی بغلوں میں رکھتے ہیں ۔ اگرچہ ناصر کاظمی کی پہلی بارش کی بحر اور صنفی تاثر کے زیر اثر لکھی گٸی اس طویل غزل نما جدید نظم یا مسلسل غزل کا ہر شعر اپنی جگہ منفرد اکاٸی بھی ہے لیکن ناصر کاظمی پہلی بارش میں جس کیفیاتی فضا کو قاٸم کرنے میں کامیاب نہیں ہوۓ تھے ڈاکٹر ابرار عمر اس میں واضح طور پر نہ صرف کامیاب ہوۓ ہیں بلکہ ” دوسری بارش “ کی فضاء قاری کو اپنی لپیٹ میں لیتی چلی جاتی ہے ۔ جس کی وجہ یہ ہے کہ ناصر کاظمی خارجی منظر نگاری سے شاعری بناتے نظر آتے ہیں جبکہ ڈاکٹر ابرار عمر باطنی کیفیات کے اظہار کے لیے جو استعاراتی منظرنامہ ترتیب دیتا ہے اس میں بلا کی شعری قوت جدید طرز احساس کے ساتھ قیامت ڈھاتی محسوس ہوتی ہے ۔
وحشی رات ، ہوا کا پتھر
جسم کا شیشہ چُور ہوا تھا
گھٹن ، وحشت ، بےکلی اور آلام کے ازالے کی آرزو میں ملنے والی اذیت میں پتھراتے ، پگھلتے موسموں میں ڈھل جانے کے موضوع پر اتنی متحرک پینٹنگ اردو شاعری میں شاید ہی کہیں نظر آۓ ۔ شعر میں متحرک منظر نگاری جسے آج کی زبان میں وڈیو کہتے ہیں وہ تو دکھاٸی دیتی ہی ہے لیکن ساتھ ساتھ پتھر لگنے سے شیشے کے بُت کے ٹوٹنے کی چھناکے دار آواز بھی باقاعدہ سناٸی دیتی ہے ۔ میں اگرچہ شعر کی نقد و نظر میں شعر کو کھول کر بیان کرنے کو اچھا نہیں سمجھتا لیکن یہاں مجھے شعر کی شرح سے بچ کر منظر نگاری کی جادوگری کو بیان کرنے کی ضرورت اس لیے پیش آٸی کہ تنقید کے طالب علم اور مدرس دونوں پر واضح ہوجاۓ کہ شاعری اپنے فطری ارتقاء میں میر سے ناصر کاظمی اور ناصر کاظمی سے ڈاکٹر ابرار عمر تک کس طرح آگے کا سفر طے کر رہی ہے ۔
میر اور ناصر پر موضوع کی سبقت کی ایک مثال دیکھٸیے ۔۔۔
کتنے گاؤں اُجڑ گئے تھے
دریا رستہ بدل گیا تھا
نظاروں کو کچھ لوگوں نے
اک دوجے میں بانٹ لیا تھا
اس بستی کے فنکاروں کو
ورثے میں افلاس ملا تھا
دیواروں پر کائی اُگی تھی
دروازے پر تالا لگا تھا
سب زنجیریں کھول کے میں نے
اُس دروازے کو کھولا تھا
جب اردو زبان و ادب کے مدرسین و ناقدین غزل میں میر و غالب اور نظم میں ن م راشد او مجید امجد پر بریک لگا دیتے ہیں تو یہ لوگ دراصل احمد فراز اور اختر حسین جعفری کی شعری عظمت کا انکار کرکے فطرت کی ارتقاٸی صفت اور شاعری کے بلندی اور وسعت کی طرف سفر کی توہین کرتے ہیں ۔ یہ سوچنا کتنا بڑا مذاق ہے کہ ہمارے محدود ویژن اور کمزور ادبی قابلیت کے مالک مدرسین کی خوشنودی کی خاطر شاعری میر و غالب اور راشد و مجید تک پہنچ کے آگے بڑھنے کا ارادہ ترک کرچکی ہے ۔ خدا کا شکر ہے کہ رب تعالیٰ نے تاج برطانیہ کے کارپردازوں کی طرح تخلیق و تحقیق و تنقید کا معاملہ محض ملازمت پیشہ مدرسین پر نہیں چھوڑ رکھا ورنہ فیک تعلیمی نظام کو جاری رکھنے اور اس کی حفاظت کرنے کے لیے دین ایمان تک بیچنے والے یہ مصنوعی معتبر و معزز افراد اب تک سماج سے رہی سہی جمالیات بھی چھین کے انسانی ترتیب اور سماجی توازن مکمل طور پر اتھل پتھل کر چکے ہوتے ( جو کہ ان کی اب تک کی کارگزاری کے باعث کافی حد تک ہوچکا ہے ) –
ڈاکٹر ابرار عمر کی دوسری بازش وقت کی تاریک پرت یعنی رات کے استعارے سے شروع ہوتی ہے ۔ یہ شاعر کی طرف سے جہاں کاٸنات کی نامعلوم وسعتوں میں جاری و ساری بےانت سے انسان کے تن ِ تنہا نبرد آزما ہونے کی کہانی کا آغاز ہے وہاں اس امر کی نشاندیہی بھی ہے کہ تخلیقی عمل دراصل تاریکی سے روشنی اور نامعلوم سے معلوم میں ظہور کا نام ہے ۔
رات کا چرخہ گھوم رہا تھا
میں تنہائی کات رہا تھا
آگے آگے نیند تھی میرے
پیچھے پیچھے خواب چلا تھا
سوچ کا ہر چھوٹا سا دھارا
خواب سمندر میں گرتا تھا
خواب میں منظر ہی منظر تھے
آنکھ کھلی تو میں تنہا تھا
جھوٹ کے پیچھے جھوٹ کے آگے
میں کوٸی سچ ڈھونڈ رہا تھا
۔۔۔۔۔۔۔
شاعر نے آغاز میں ہی اپنی ذمہ داری کا اعلان کرکے گویا انسانی سماج اور شاعرانہ دل کے درمیان پیدا ہونے والے تضادات سے جنم لینے والی سچاٸی کی تلاش کا اشارہ دے دیا ہے ۔
ادراکی تنقیدی دبستان نے عرصہءدراز سے اصول قرار پانے والے علمی و ادبی مغالطوں پر کاری ضرب لگاٸی ہے اور ٹیبوز کو توڑا ہے تاکہ ایک تو تخلیقی ادب کے حوالے سے پیدا کیا گیا مصنوعی جمود بےنقاب کیا جاۓ اور دوسرا فیک ادب اور ادیب کو حقیقی ادب اور ادیب کی جگہ لینے سے روکا جاۓ ۔
ادراکی تنقیدی دبستان کو شعر کے مابعدالطبعیاتی سٹرکچر کی مثال دے کر واضح کرنے کے لیے ڈاکٹر ابرار عمر کا شعری مجموعہ ” دوسری بارش “ کا ایک بہت بڑےتخلیقی ڈیزاٸن کے طور پر میسر آنا بہت خوش آٸند ہے تاکہ اس کے دریاۓ کیفیت و معانی کی تہ میں رواں ان عناصر کی نشاندیہی کی جا سکے جس پر اس کا تخلیقی وجود استوار ہوپایا ہے ۔
میں نے کٸی حقیقی عظیم تخلیق کاروں کے ہاں تخلیقی ارتقاء کے ساتھ ساتھ شخصی ارتقاء یعنی
Self Actualization
کا سفر اور مراحل طے ہوتے محسوس کیے ہیں ۔ خصوصاً وہ تخلیق کار جن کے بنیادی تخلیقی مہیجات میں دکھ کو کلیدی حیثیت حاصل ہو ۔ بدھا کی تعلیمات میرے اس مفروضے کے ثبوت کے لیے بنیادی اہمیت رکھتی ہیں ۔ جہاں دکھ فکرِ راست کی سمت نماٸی کا فریضہ انجام دیتا نظر آتا ہے اور انسان تکمیلیت کے سفر پر آ گے بڑھنے لگتا ہے ۔ انسان جتنا جتنا حیوانی جبلتوں سے بلند اور مادی حرص کے داٸرے سے دور ہوتا جاتا ہے اتنا ہی اس کا باطن آلاٸشوں سے پاک اور پیور ہوتا جاتا ہے ۔ دکھ اور صبر کے ریاض کے ساتھ تشکر کا نفسیاتی میکنزم شخصی طور انسان کو انسانی حیثیت میں ان تمام انسانوں سے ممتاز کردیتا ہے جو حیوانی جبلتوں کی گرفت سے نکل نہیں پاتے ۔ انسان اس وقت حقیقی طور پر ایک ارفع انسان ہوجاتا ہے جب وہ اپنی ذات اور اپنے دکھ پر دوسرے انسانوں کے لیے خیر کے عمل کو ترجیح دینے میں کامیاب ہوجاتا ہے۔
ڈاکٹر ابرار عمر کی یہ طویل غزل ذات کے انتہاٸی گہرے دکھ سے شروع ہوتی ہے اور معصوم و دکھی انسانوں کو دنیاوی دکھوں سے نجات کے رستے کی آرزو اور خواب پر ختم ہوتی ہے ۔ یوں ایک تخلیق پارہ انسان کو بےمعنی دکھوں سے نجات اور نروان کے حصول کا نصاب فراہم کرتا دکھاٸی دیتا ہے ۔ جو لوگ سوال کرتے ہیں کہ عظیم ادب کونسا ہوتا تو میرا جواب یہ ہے کہ عظیم ادب ، ڈاکٹر ابرار عمر کی طویل مسلسل غزل ، ” دوسری بارش “
ہوتا ہے ۔ آخر میں چند اشعار کا مطالعہ کیجٸیے اور کوشش کیجٸے کہ مجموعہ کہیں سے میسر تو اس کے مطلعے سے حاصل ہونے والے لطف کو ممکن بناٸیے ۔
اُس کو توڑنے کی عادت تھی
مجھ کو بھی وہ چھوڑ گیا تھا
کشتی ساری ٹوٹ چکی تھی
ساحل آگے بھاگ رہا تھا
میں اُس کی دہلیز پہ بیٹھا
اپنے آنسو پونچھ رہا تھا
ریت کے جیسا تھا وہ لمحہ
جو ہاتھوں سے نکل گیا تھا
بارش بارش کرنے والا
آگ کے ہاتھ میں کھیل رہا تھا
سارا منظر ٹوٹ چکا تھا
آنکھ کھلی تو میں تنہا تھا
تھکی تھکی سی روشنیاں تھیں
آخری سایه گزر رہا تھا
دیواریں ہی دیواریں تھیں
باہر کو بس اک رستہ تھا
خاموشی کی خاموشی تھی
اور پھر دل نے شور کیا تھا
شہر سے آج یہ کون آیا تھا
بستی میں اک ہنگامہ تھا
آنے والے کل کے خوف نے
سارے ذہنوں کو گھیرا تھا
جن گلیوں میں ، میں رہتا تھا
وقت نے اُن کو چاٹ لیا تھا
جانے کس نے سازش کی تھی
سارا منظر اجر چکا تھا
خنجر تھا انسان کے ہاتھ میں
سامنے بھی انسان کھڑا تھا
۔۔۔۔۔۔۔