سخن فہم احباب کی نذر”
{ زندگی کے مختلف ادوار کی عکاسی کرتی ہوئی ایک نظم ۔ (ف ن خ)}
” اسپِ کور چشم “
میرے ماضی کی کتاب
میرے سامنے کھلی ہوئی ہے !
کسی فلم کے سین کی طرح
کتاب کے اوراق
الٹتے جا رہے ہیں !
اماوس کی رات کی مثل
تند خُو اسپِ کور چشم
مجھے اپنی برہنہ پشت پر سوار کیے
گھاٹیوں، چٹانوں کو الانگتا پھلانگتا
بگٹٹ دوڑا جارہا ہے !
نہ آغاز سے غرض ، نہ انجام کی پرواہ
زندگی کے کتنے ہی ماہ و سال اسی عالمِ میں گزرگئے
“نے ہاتھ باگ پر ہے نہ پا ہے رکاب میں “!
اچانک اماوس کی سیاہ رات کی دبیز چادر
سرکنے لگ جاتی ہے
آنکھیں اندھیرے اجالے سے آ نکھ مچولی کھیلنے میں مصروف ہوجاتی ہیں
روحِ مطمئنہ کی صدائے خوش کُن
کانوں میں رس گھولنے لگتی ہے !
خانہء خدا، حرمِ پاک ، مقامِ ابراہیم
صفا مروا !
جلال و جمال سپے معمور فضا
چشمِ ما روشن، دلِ ما شاد !
اماوس کی سیاہ رات کی چادر
مزید سرک جاتی ہے !
نور ہی نور
قلب پُرنور !
رہگزر رہگزر
دو رویہ خرمے کے درختوں کی قطار !
فضا عود و عنبر سے مشکبار
مسجدِ نبوی کے گنبد و مینار !
صحن حرم ، تتلیوں کےدھنک رنگ پروں کے
فرحت بخش سائے
روضے کی جالی کے سامنے !
نادم و شرمندہ و شرمسار
اشکبار !
ورقِ قلبِ آلودہ پہ تحریر
شفاعت کی عرضی لیے !
لب بستہ، دست بستہ
کاغذی ملبوس بدن زیب کیے !
آقاۖ کے دربار میں
کوئی ندامت سے سرجھکائے
ملتجئی نگاہِ عفو و کرم ہے !
یکایک اماوس کی سیاہ رات کی چادر
تحلیل ہوجاتی ہے !
چہار اطراف نور کرنیں پھوٹنےلگ جاتی ہیں
تشکیک کی دھند کی جگہ
کنجِ جاں میں
چراغِ ایمانی فروزاں نظر آتا ہے !
زندگی کی نئی صبح کا سورج
طلوع ہوچکا ہے !
ماضی کی کتاب کے اوراق
ہوا برد ہو چکے ہیں
تندخُو اسپِ کور چشم
اپنی برہنہ پشت کے ساتھ نابود ہے !
اور ایک بندہء عاصی
اپنے رب کے آگے سر بہ سجود ہے !!
(فیروز ناطق خسروؔ)
۔