ایمانداری کے خُمار کا ظُلم
———————————
صاحب موصوف اس محکمے کے سربراہ تھے جس کا کام بدعنوانی کا سدباب کرنا ہوتا ہے، ریٹائرڈ جج تھے جو پی سی او ججز کے خلاف عدالتی فیصلے سے متاثر ہو کر نکالے گئے تھے، بزعم خود بڑے ایماندار آدمی تھے اور ہماری پہلی پہلی فیلڈ پوسٹنگ تھی۔ افسران کی کمی کی وجہ سے ایک اور ضلعے کا چارج بھی اسی نوآموز افسر کے پاس تھا۔ اوپر سے باس بڑے جلد باز تھے۔ 2010 کے سیلاب نے ہر طرف آفت مچائی ہوئی تھی۔ رات کے دس بجے کے بعد کا وقت تھا جب جج صاحب ٹی وی پر بریکنگ نیوز کی صورت میں نمودار ہوئے۔
سیلاب زدگان کے لئے مخصوص ادویات میں بڑی کرپشن کی خبر تھی اور سیلاب زدگان کی ادویات مارکیٹ میں فروخت ہو رہی تھیں۔ رپورٹر صاحب کی فوری ایکشن کی درخواست پر جج صاحب نے فوری انکوائری کروانے اور ذمہ داران کو سخت سزا دینے کا اعلان کر دیا۔ اگلے دن کا سورج طلوع ہوا تو باس کا حکمنامہ موصول ہوا۔ ادویات چوری کی انکوائری اس خاکسار کے سپرد کر کے ذمہ داران کا فوری تعین کرنے کا حکم صادر ہوا ساتھ یہ وارننگ بھی کہ ڈی جی صاحب براہ راست نگرانی فرما رہے ہیں۔
یوں ایک بریکنگ نیوز سرکاری نوکری کا پہلا چیلنج بن گئی۔ سو انکوائری کا آغاز کر دیا گیا، موقع ملاحظہ ہوا، عطیہ شدہ ادویات کی تفصیل منگوائی گئی، ضلعی ہیلتھ آفس کے مرکزی سٹور کا معائنہ کیا گیا، الزام علیہان کو طلب کیا گیا، ذمہ دار افسران سے تفصیلات طلب کر کے ان کے بیانات ریکارڈ کیے گئے اور باس کی طبیعت، ٹی وی کے ٹکرز اور جج صاحب کے جلال کو مدنظر رکھتے ہوئے بڑی محنت اور عرق ریزی سے ذمہ داران کا تعین کر کے رپورٹ بھیج دی گئی۔
باس نے رپورٹ پڑھی اور جج صاحب کے ملاحظہ کو لاہور روانہ کر دی لیکن ان چند دنوں میں رپورٹرز نے جج صاحب کو روزانہ لائیو لا کر فالو اپ لینا جاری رکھا۔ جج صاحب نے رپورٹ کی ورق گردانی کی اور رپورٹ سے شدید عدم اتفاق کرتے ہوئے خاکسار کو نا اہل گردان کر سزا دینے کی ٹھان لی اور یوں ہم بطور سزا ٹرانسفر ہو کر میانوالی بھیج دیے گئے۔
ادویات چوری کی از سرنو جانچ پڑتال کے لئے جج صاحب نے اپنے اعتماد کے دو قابل افسران پر مشتمل ایک نئی انکوائری کمیٹی تشکیل دے دی اور یوں انکوائری دوبارہ شروع ہو گئی۔ تمام مراحل پھر سے طے ہوئے، الزام الیہان کی طلبی، ریکارڈ کی جانچ پڑتا، سٹور کے معائنے اور ریکارڈ کی ورق گردانی کے بعد انکوائری کمیٹی نے پھر سے رپورٹ مرتب کر کے کے لکھا کہ انتہائی جانفشانی سے تمام حقائق و واقعات کا جائزہ لینے کے بعد یہ کمیٹی پہلے انکوائری افسر کی رائے سے مکمل اتفاق کرتی ہے، رپورٹ برائے ملاحظہ پیش خدمت ہے۔
لیں جناب رپورٹ جج صاحب کے سامنے پیش ہوئی تو انکوائری کمیٹی کی رپورٹ پر ایک بار پھر سے عدم اتفاق کرتے ہوئے شدید برہمی کا اظہار فرمایا اور دونوں افسران کو بطور سزا بالترتیب منڈی بہا الدین اور لاہور ٹرانسفر فرمانے کا شاہی حکم صادر فرما دیا۔ برسوں بعد سجاد صاحب کے اس سوال پر کہ کبھی کوئی کام کر کے افسوس بھی ہوا تو عرض کیا ہاں اس نوجوان ڈاکٹر کے خلاف رپورٹ لکھ کر کہ جس کا خمیازہ جج صاحب کی انا اور ٹی وی ٹکرز کی بھینٹ چڑھ کر وہ بیچارہ کئی برس بھگتتا رہا۔ حالات و واقعات کی تفصیل کچھ یوں تھی۔
سیلاب زدگان کے لئے دنیا بھر سے عطیہ شدہ ادویات ضلع کے مرکزی سٹور میں جمع ہونے لگیں، ادویات کی تقسیم اور جلدی ڈسپوزل کا کوئی بہتر میکانزم نہ ہونے کے باعث اس وقت کے محکمہ صحت کے سب سے بڑے ضلعی ذمہ دار نے ادویات کا بڑا حصہ ایک ایسے ٹرسٹ ہسپتال کو عطیہ کر دیا جو ایک بہت بڑے آرمی افسر کی زیرنگرانی کام کر رہا تھا۔ تازہ تازہ ایم بی بی ایس کر کے آیا ڈاکٹر ساجد اسی ٹرسٹ ہسپتال میں کام کرتا تھا۔ نوجوان ڈاکٹر نے شام کے اوقات کا کوئی بہتر مصرف نہ پا کر اپنا کلینک بنانے کا پلان کیا اور ایک دکان کرائے پر لے لی۔
پرائیویٹ کلینک کے لئے ادویات کا بندوبست کرنے کا خیال آیا تو ٹرسٹ ہسپتال سے چند پیکٹ اٹھائے اور کلینک پہ سجا دیے۔ افتتاح ہوا تو ”برائے سیلاب متاثرین“ کے ٹیگ پر ایک رپورٹر کی نظر پڑ گئی۔ رپورٹر صاحب نے ڈاکٹر کو ”معاملات معاملہ فہمی سے طے“ کرنے کی آفر تو بلاشبہ دی لیکن نوجوان ڈاکٹر کی طرف سے حوصلہ افزا ”آفر“ نہ پا کر اس فرض شناس رپورٹر نے بریکنگ نیوز چلا کر جج صاحب کی ایمانداری کا امتحان لینے کا فیصلہ کیا۔
ایسے میں اپنی انتہائی کوشش کے باوجود خاکسار کے پاس ڈاکٹر کی اس عظیم تقصیر سے صرف نظر کرنے کا کوئی موقع نہ رہا کہ اس سے سیلاب زدگان کی ادویات کے غلط استعمال کا ”جرم عظیم“ بہرحال سرزد ہوا تھا۔
مجھے لیکن اس سوال کا ابھی تک جواب نہیں مل سکا کہ اپنی انکوائری رپورٹ میں جب الزام علیہان کے جرم کے مطابق سزا تجویز کر دی گئی تھی تو جج صاحب آخر اور چاہتے کیا تھے۔ سجاد صاحب کے سوال کا جواب یہی کہ ہاں مجھے افسوس ہے اس ڈاکٹر کی ان تکالیف پر جو ایک ایماندار افسر کی انا کی بھینٹ چڑھ گیا اور ان سینتیس غریب مزدوروں کے مصائب پر جو ایک اور ایماندار افسر کی انا کا شکار ہو کر سالوں عذاب سے گزرتے رہے۔ یہ کہانی کسی اگلی نشست کے لئے سہی۔ میری الجھن البتہ یہ ہے کہ عادل رب ایمانداری کے خمار میں ڈوبے ایسے صاحب اختیار لوگوں کو کس نظر سے دیکھے گا؟