محمد افتخار شفیع

از محفل ما” پیر طرحدار ” برفت

محمدافتخارشفیع

ایک شام ایسی بھی آئی ، میں اور محمدمختارعلی سنٹرل کالج ملتان میں ہونے والے فاران اکادمی کے ادبی اجلاس میں پہنچے۔۔۔۔ایک کمرے میں مختلف لوگ پہلے ہی سے موجود تھے۔مختار علی نے تعارف کروایا۔یہ نابغہ عصر ڈاکٹراسلم انصاری تشریف فرما ہیں،یہ دھیمے دھیمے انداز میں گفتگو کرنے والے حفیظ الرحمٰن خان ہیں،یہ کھچڑی ڈاڑھی والے خالد مسعود خان ہیں جو بڑے تیز طرار لگتے ہیں لیکن ” ماٹھا کالم“ لکھتے ہیں۔یہ سفید لٹھے کی کلف لگی شلوار قمیص پہنے وحیدالرحمٰن خان ہیں،وہ چاکلیٹی ہیرو مختار پارس ہیں۔ یہ سفید کرتے پر گلے میں نسواری رنگ کا صافہ ڈالے ، ہوائی چپل میں موزے پہنے ذوالکفل بخاری ہیں۔یہ چاند کی تنہائی کے نوحہ گرمستحسن خیال ہیں۔ خوب صورت بالوں اور نیلگوں شیشوں کی عینک والے ڈاکٹراسلم انصاری محفل کی جان تھے۔اس مجلس میں ان کی مثال حسن کے ایک مرکزے کی تھی۔۔۔
ڈھلا ڈھلایا ،سجاسجایا۔۔۔۔دیوتا سمان۔۔۔یا گردونواح کی ہر شے سے بےنیاز کوئی انا مست درویش جس نے حالات سے دل برداشتہ ہوکر بن باس لے لیا تھا۔۔۔لیکن کبھی کبھی اپنے حجرے سے نکل کر ادھر ادھر جھانکنے کے لیے یہاں وارد ہوتا ہے۔
ڈاکٹراسلم انصاری سے یہ سرسری ملاقات ہوئی تو اس کے بعد یہ سلسلہ ساری ہوگیا۔پہلی تفصیلی ملاقات ان کے سبزہ زار کالونی ، بوسن روڈ والے گھر میں ہوئی۔اس وقت تک میں انصاری صاحب کی معروف تخلیقات ( غزل:میں نے روکا بھی نہیں ۔۔۔۔اور نظم : تمام دکھ ہے )کی مناسبت سے ان کی مقبولیت کے بارے میں جانتا تھا۔میں لوئر مڈل کلاس کی فطری ہچکچاہٹ میں مبتلا تئیس سالہ نوجوان تھا، اس پر اپنی سادہ لوحی کے باعث خود کو ” شاعر مطلق” بھی سمجھتا تھا۔پہلی ملاقات میں ان سے کیے جانے والے سوالات کے بارے میں اب بھی سوچوں تو شرمندگی ہوتی ہے۔اس روز یہ علم ہوا کہ بڑے لوگوں کی ایک نشانی یہ بھی ہے کہ ان کے پاس بیٹھ کر اپ خود کو چھوٹا تصور نہیں کرتے ۔اس کے بعد مختلف نجی اور غیر نجی نشستوں میں ان سے ہونے والی ملاقاتوں میں ان کے بارے میں مجھے مزید جاننے کاموقع ملا۔

ملتان شہر میں میری جوانی کے دس قیمتی سال دفن ہیں۔وہاں میرے قیام کا دور 1996ءسے 2005ء تک ہے۔مجھے اسی شہر نے پہلی دفعہ محبت کرنا سکھایا۔میں نے بہت سی مہربان شخصیات دیکھیں۔محبتوں کے اسی سلسلہ ہائے کوہ میں انصاری صاحب ماونٹ ایورسٹ نہ سہی لیکن کے۔ٹو کی حیثیت ضرور رکھتے تھے۔تہ درتہ ایک کرشماتی شخصیت۔۔اک بشر اک ستارہ غمناک۔۔۔۔۔۔۔۔
وہ پورا ملتان تھے۔انھیں اس شہر سے عشق تھا۔۔۔۔:
مرا میھمن نہ تبریز و نہ روم است
کہ خاک پاک ملتاں مرزبوم است
چہ ملتان ؟ اصفہان کشور پاک
بموج عشق ہر ںشاخیست نمناک
زھے ملتاں ، زھے شہر کرامت
خدا اباد دارشں تا قیامت

ملتان کے بعد ان کادوسرا محبوب شہر لاہور تھا۔انھوں نے پنجاب یونیورسٹی اورینٹل کالج سے اردو زبان وادب میں ایم اے تھا۔یہاں انھیں ڈاکٹر سید عبداللہ جیسے استاد ملے۔انھی دنوں انورمسعود،خورشید رضوی اور افتاب اصغر بھی اسی ادارے میں زیرتعلیم تھے۔انصاری صاحب تعیلم مکمل ہونے کے بعد کچھ عرصے
تک کالج میں پڑھاتے بھی رہے۔بقول شخصے انھی دنوں ایک کلاس فیلو نے ناجائز طریقے سے اپنے نمبر بڑھوا کر پہلی پوزیشن حاصل کرلی اور ان کی جگہ پر براجمان ہوگئے۔ اورینٹل کالج کو ان جیسا استاد میسر ہونا اعزاز سے کم نہ تھا ،افسوس کہ ایسا نہ ہوسکا ۔لاہور میں قیام ہی کے دنوں میں اسلم انصاری نے ادبی محافل میں جانا شروع کیا۔شمع تاثیر کے طرحی مشاعروں میں انعامات حاصل کیے۔

ناصر کاظمی سے دوستی بھی انھی دنوں کی یادگار ہے۔ناصر کاظمی نے مصحفی کے رنگ میں “پہلی بارش” کی صورت میں جو شعری تجربہ کیا،اسلم کے ہاں اسی نوع کی غزلیں اس سے بہت پہلے موجود تھیں اور “ادب لطیف” میں شائع ہوچکی تھیں۔میں نے انصاری صاحب کے ہاں وہ خاص شمارہ دیکھا ہے۔ ان کے بقول “پہلی بارش” کا نام بھی انھوں نے تجویز کیا تھا۔ایک روز ناصرکاظمی اور اسلم انصاری سڑک کے کنارے چلتے ہوئے جارہے تھےکہ ہلکی ہلکی بارش شروع ہوگئی ۔اسلم انصاری نے کہا :
“یہ موسم کی پہلی بارش ہے”.
ناصر کاظمی نے چونک کر کہا۔۔۔
“پہلی بارش۔۔۔پہلی بارش۔۔۔مجھے اپنے شعری مجموعے کانام مل گیا”۔۔۔۔۔
ناصر کاظمی نے اسلم انصاری سے سینئر ہونے کے باوجود انھیں اپنا ہم عصر کہا ہے۔لاہور چھوڑنے کے بعد بھی دونوں شخصیات
کی وابستگی قائم رہی۔بعض لوگ احمدعقیل روبی کے حوالے سے کچھ خطوط اور ناصر کی ایک غزل ( نئے کپڑے بدل کر۔۔۔) کو اسی تعلق سے منسوب کرتے ہیں۔اس کے پس منظر میں کچھ حاسدین کی اعلانیہ و خفیہ مساعی شامل ہیں۔راقم کو اس کے ایک قریبی دوست نے بتایا کہ عقیل روبی اخیردم تک ان لوگوں
سے نالاں رہے۔ایک نشست میں ، میں نے ناصر کاظمی کی شخصیت کے بارے میں ان کی رائے پوچھی۔انھوں نے میری توقع کے برخلاف رائے دی جس کی تفصیل پھر کبھی سہی۔

لاہور میں قیام کے دنوں میں انصاری صاحب کی زندگی میں ایک نیاموڑ ایا ۔جس نے ان کی شاعری کو ایک انوکھا رنگ بخشا۔۔۔

میں نے روکا بھی نہیں اور وہ ٹھہرا بھی نہیں
حادثہ کیا تھا جسے دل نے بھلایا بھی نہیں

تجھ سے انکھ ملاتا کیسے
تواس دن جانے والا تھا

کچھ تو احوال غم دل بھی سنایا ہوتا
رک گیا تھا تواسے اور بھی روکا ہوتا

ملازمت کے سلسلے میں ان کازیادہ عرصہ ایمرسن کالج میں گزرا۔
کچھ عرصہ ڈیپوٹیشن پر ملتان ارٹس کونسل میں بھی متعین رہے۔انھی دنوں انصاری صاحب نے ایک لوک گیت کو نئے سرے سے ترتیب دیا ۔ثریا خانم کاگایا ہوا یہ گیت ہم نے ریڈیو ملتان کی نشریات سے باربار سنا ۔اب تو یہ کلاسیک بن چکا ہے ۔

ککڑا دھمی دیا کئے ویلے دتی ہئی بانگ
سجناں کو ٹور بیٹھی ان میکوں پچھوں لگا ارمان۔۔۔
او ککڑا دھمی دیا

ڈاکٹراسلم انصاری کی علمی وادبی کاوشیں کتابوں کی شکل میں موجود ہیں۔ان کو ملنے والے ایوارڈ اور تمغہ جات کون سے تھے۔یہ اس کی تفصیل بیان کرنے کامحل نہیں۔میں تویہ عرض کروں گا کہ ان کا زیادہ تر کام ملازمت سے سبکدوش ہونے کے بعد منظرعام پر ایا۔
جب بھی انصاری صاحب سے ملاقات ہوتی تو دور سے بانہیں کھول کر گلے لگاتے اور ہمیشہ ایک جملہ بولتے :
“بھئی اپ تو یہیں رہ جائیں”
میرا سچ مچ دل ٹوٹ جاتا۔سوچتا کہ میں اتنے سالوں سے یہاں مقیم ہوں۔ کون سا یہاں سے بھاگا جارہا ہوں جو انصاری صاحب یہ جملہ بولتے ہیں۔اب سوچتا ہوں کہ یہ “پاس وضع “کا ایک انداز تھا۔

ان کے مزاج میں ایک وضعدارانہ شوخی بھی تھی۔۔۔۔۔۔۔مثال کے طور پر مجھے ایک عشائیہ یاد ہے جس کااہتمام ذوالکفل بخاری کی سعودی عرب روانگی کے موقع پر کیاگیاتھا۔احباب کی محفل گرم تھی۔سب خوب چہک رہے تھے۔اس رات مجھے اسلم انصاری صاحب کی شخصیت میں موجود بانکپن کااندازہ ہوا۔ انھوں نے مجھ پر بھی بطور خاص خوب جملے کسے۔

میں نے اپنا شعری مجموعہ شائع کروانے کاسوچا تو اس کانام “نیلے چاندکی رات” بھی انصاری صاحب کاتجویزکردہ تھا۔اس عنوان سے میری ایک نظم کتاب میں شامل تھی۔میں کتاب کا دیباچہ لکھنے کی فرمائش لے کر ان کی خدمت میں حاضر ہوا تو مصروف تھے۔مجھے فراق گورکھ پوری کاشعری مجموعہ دے کر کہنے لگے:

“کچھ دیر انتظار کی زحمت کیجیے۔تب تک فراق کو پڑھیے۔نئے لکھنے والوں کے لیے فراق کامطالعہ بے حدضروری ہے”

تربیت کاایک انداز تھا۔انھوں نے میری شاعری کے حوالے سےشاندار تحریر بھی لکھی بلکہ رضا ہال ملتان میں ہونے والی کتاب کی تقریب رونمائی کی صدارت بھی کی۔یہ میرے جیسے مبتدیوں کے لیے احسان سے کم نہ تھا۔
ایک شاعر لاہور سے ملتان گئے ۔انھوں نے انصاری صاحب سے ملنے کی خواہش ظاہر کی۔نجم الاصغر شاہیا اور ڈاکٹرسیدعامرسہیل بھی ہمراہ تھے۔پرتکلف چائے کے دوران مہمان نے انصاری صاحب سے ان کی معروف نظم ” تمام دکھ ہے ” سنانے کی فرمائش کی۔اسلم انصاری صاحب نے کتاب منگوائی۔ابھی نظم کاکچھ حصہ ہی پڑھاتھا کہ لاہور سے ائے ہوئے صاحب کے فون کی بیل بجی۔انھوں نے مجلس کے اصولوں کے خلاف فون اٹینڈ کیا ،گفتگو طویل اور غیرضروری تھی۔جب بات ختم ہوئی تو بڑے فخر سے بولے “معذرت وصی شاہ صاحب کافون تھا”.
ہم سب کے منہ بن گئے۔انصاری صاحب نے اس کے برخلاف خوشی کا اظہار کیا۔اس کے بعد مجھے ان صاحب کو کسی سے بھی ملوانے کی جرات نہیں ہوئی۔
میں نے اکادمی ادبیات کے تحت مشاہیر کوخراج پیش کرنے کے سلسلے “پاکستانی ادب کے معمار” کے تحت “اسلم انصاری شخصیت اور فن ” کے عنوان سے کتاب لکھی۔اس کتاب کے محرک ڈاکٹر وحیدالرحمن خان صاحب تھے۔کتاب ان تک پہنچی تو خوشی کااظہار کیا ۔میرے پی ایچ ڈی کے تحقیقی مقالے کے نگران بھی ڈاکٹراسلم انصاری تھے۔تحقیقی عمل کے دوران رابطہ ذرا کم رہا لیکن استفادے کا سلسلہ جاری رہا۔
چندروز پہلے پنجاب یونیورسٹی اورینٹل کالج لاہور میں محترمہ ڈاکٹربصیرہ عنبرین صاحبہ کی نگرانی میں محترمہ شائستہ اعوان نے اسلم انصاری کی شخصیت اور فن پر پی ایچ ڈی کا مقالہ تحریر کیا تھا۔مجھے بیرونی ممتحن کے طورپر مدعو کیا گیا تھا۔شاندار باتیں ہوئیں۔خبر نہ تھی کہ ہماری محبوب شخصیت چند دنوں بعد دنیا سے رخصت ہونے والی ہے۔ کل من علیھافان

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *