“مجھے لگا جیسے وہ اپنے آپ سے جنگ کر رہا تھا۔ یہ کیفیت کچھ لمحوں کے لیے ہی رہی ہو گی کہ اُس کا بدن جھرجھرایا اوراس نے ایک بلوچی کہاوت بھی سنائی:’’کتوں کا گلہ کسی نے نہیں دیکھا،بھیڑبکریوں کے گلے ہم روز دیکھتے ہیں حالاں کہ دِن میں کتنوں کے گلے کٹتے ہیں۔‘‘ اِس کہاوت کا محل کیا تھا، میں سمجھ نہ پایا تھا مگراگلے ہی لمحے لیپ ٹاپ پرایک ایسی تصویرمیرے سامنے تھی جس میں کئی لاشیں ناہموارزمین پر پڑی ہوئی تھیں۔ ہرلاش سفید کفن میں لپٹی ہوئی، یوں کہ لاش کفن میں لپیٹ کر پاؤں اور سردونوں طرف سے گرہ لگا لی گئی تھی۔ ذرا فاصلے پرلوگوں کی قطارتھی۔ سب نے سراورمنہ ڈھانپ رکھے تھے۔ لگ بھگ سب کے کندھوں سے دیسی ساخت کے ہتھیار جھول رہے تھے۔ وہ ہاتھ باندھے یوں کھڑے تھے، جیسے کھیت کنارے سفیدے کے درختوں کا سلسلہ ہو یا جیسے وہ جنازہ پڑھ رہے ہوں۔ اُن سے ذراپرے کالے رنگ کی چمکتی ہوئی پجیرو کھڑی تھی۔ کلیم خان کا تبصرہ رواں رہا:’’مرنے والے یوں گچھوں کی صورت مر جاتے ہیں۔ مر جاتے ہیں یا عدم پتہ ہو جاتے ہیں۔‘‘ پھر اُس نے پانچ اورلاشیں دِکھائیں،اَلگ اَلگ۔ اُن میں سے کوئی بھی کفن میں نہ تھی۔ اُن کا کوئی جنازہ پڑھنے والا نہ تھا۔ وہاں قریب کوئی سیاہ یا سفید پجیروبھی نہ تھی۔
“ایک عجیب جنگ ہے جس کے کوئی معنی نہیں ہیں، کوئی انجام نہیں ہے مگرجس میں زندگی کے دھتکارے ہوئے لوگوں کو دھکیلا جا رہا ہے۔ اور دیکھیے!”
وہ میری طرف آنکھیں یوں کھول کر دِیکھ رہا تھا کہ اس کی بھبھوکا آنکھوں میں ڈھیلوں کی پوری گولائیاں جیسے اپنے اپنے محور پرگھوم رہی تھیں۔ اُس نے اُنگلی میری جانب اُٹھائی ہوئی تھی۔ اگر وہ اُنگلی نہ ہوتی ریوالورہوتااوراُس میں سے تڑتڑ گولیاں نکلتیں تو ایک بھی ایسی نہ ہوتی جومیری شاہ رَگ سےاِدھر اُدھرہو کرگزرتی، سب اندردھنس کر پارہوجاتیں۔ میں اُسے دیکھے چلے جانے پر مجبورتھا۔ اُنگلی وہیں کی وہیں رہی اور وہ کہنے لگا:
“بلوچ سردار پیرو کی طرح کی بلائیں ہیں؛ بظاہر بہت معززمگر فی الاصل سازبازکرکے اَپنا اُلو سیدھا کرنے والے۔ وہ اِن دھتکارے ہوئے لوگوں کو خوب صورت مستقبل کی نوید سناتے ہیں، اَپنے ساتھ ملانے اوراپنی جنگ کا اِیندھن بنانے کے لیے اور جب یہ بھوکے ننگے بے چارے لوگ ان کے پیچھے چل پڑتے ہیں توسمجھویہ سب پیرو بن جاتے ہیں، تین ٹانگوں والی بلائیں،جو مسافروں کو بہکا کر اپنا شکار بنا لیا کرتی تھیں۔”
افسانہ”کوئٹہ میں کچلاک “سے مقتبس/محمد حمید شاہد