سجاد جہانیہ اور ان کی تحریریں
(ڈاکٹر قاضی عابد)
سجاد جہانیہ کی تخلیقی زندگی کے تین اہم اور بنیادی حوالے ہیں فکشن، خاکہ نگاری اور کالم نویسی. ممکن ہے کہ کچھ لوگوں کو اس امر پر تعجب ہو کہ کالم تخلیقی روایت میں کیسے شامل ہے تو عرض ہے کہ اگر ایک تخلیق کار کالم جیسی صحافتی صنف کو بھی اظہاری وسیلہ بنائے گا تو کچھ نہ کچھ تخلیقی پن اس میں خود بخود ہی شامل متن ہوجائے گا اور یوں اخباری کالم بھی اپنے معمول سے ذیادہ عمر کا حامل ہو جائے گا۔
سجاد جہانیہ کی کہانیوں میں ایک عجیب صورتحال ہے وہاں کہانی کی نانی دادی کی بجائے ان کی ہم عصر عورت یا لڑکی بولتی دکھائی دیتی ہے۔۔۔یہ لڑکی یا عورت جو کتھا بیان کرتی ہے وہ ایک آسودہ عورت کی کتھا نہیں بلکہ دکھوں میں مجبوری میں اور سماج کی چیرہ دستیوں کی شکار ناری کی کہانی ہے۔۔۔یہ کردار عجیب ہیں جو خود بھی روتے ہیں اور بین السطور لکھاری بھی نم ناک نظر آتا ہے اور قاری کے مقدر میں تو ویسے بھی پرائے دکھ میں سچے انسو بہانا لکھا ہوتا ہے جسے ارسطو نے کتھارسس کہا ہے۔ سجاد کی کہانیوں میں عورت کا المیہ ان کردارں کے اندر جو ٹوٹ پھوٹ پیدا کرتا ہے وہ سماج کے اندر تبدیلی کی آرزو کا اظہاریہ ہے۔۔
سجاد کی کہانیوں کی عورت یا لڑکی جن دکھوں کا شکار ہے وہ ان کے اندر ایک شان عزیمت بھی پیدا کرتے ہیں۔۔ وہ ایک حوصلہ مند روئیے کی حامل کردار بن جاتے ہیں۔
ان کی تخلیقی توانائی کالم نویسی کے میدان میں بھی بطریق احسن نطر آتی ہے۔۔۔انہوں نے مختلف سماجی اور تہذیبی معاملات پر بھر پور تخلیقی انداز میں اور تجزئیے کی چھلنی سے گزارتے ہوئے قلم اٹھایا ہے. ان کے کالم اپنے ہم عصر کالم نویسوں سے مختلف ہوتے ہیں۔ ان کے دو کالم مجھے یاد ارہے ہیں ایک تو انہوں نے کسی فقیر پر لکھا اور دوسرا اپنی بیٹیوں اور بیگم صاحبہ پر. ان دونوں کالموں میں فکر اور خیال ہی نہیں بلکہ اظہار کے پیمانے بھی علویت کے حامل ہیں##