کوئی گتھی بھی سلجھائی نہیں ہے
اسے میری سمجھ آئی نہیں ہے
محبت کرنے والوں سے تغافل
یہ نادانی ہے دانائی نہیں ہے
بھلا کیونکر نہ گلدستہ خریدوں
ابھی اتنی بھی مہنگائی نہیں ہے
جہاں بھی جاؤں وحشت کاٹتی ہے
کہیں پر میری شُنوائی نہیں ہے
بھلے جیسے کرو برباد مجھ کو
مجھے اب خوفِ رسوائی نہیں ہے
لئے پھرتا ہوں لاشیں رفتگاں کی
ابھی کوئی بھی دفنائی نہیں ہے
مرے جیسا بھرے لشکر میں کوئی
خدا شاہد ہے، صحرائی نہیں ہے
الگ انداز ہے جامیؔ تمہارا
یہ رنگِ دردؔ و مینائیؔ نہیں ہے
مستحسن جامی (خوشاب)