مسیحا
مرے مسیحا۔۔۔۔!
تمھارے ہاتھوں کی نرم پوروں
کو جیسے اذنِ شفاء ملا ہے
تمھاری بابت مجھ ایسے بھٹکے ہوئے مسافر
کو راستے میں خدا ملا ہے
مرے مسیحا۔۔۔!
ہیں عامیانہ سی سوچ والے یہ دنیا والے
میں ان کو کیسے بتاؤں جا کر
کہ ایک قطرے کو چھو کے کیسے
کسی نے دریا بنا دیا ہے
ہیں عامیانہ سی سوچ والے جہان والے
مری متاعِ حیات ان کو
سمجھ آئے تو کیسے آئے ۔۔؟
انہیں بتاؤں تو کس طرح سے۔۔۔۔؟
کہ کون گَنجِ وفا ملا ہے
دریدہ دامن سے گرتے لمحوں کو گننے والا
یہ جانتا ہے کہ کیا ملا ہے
مرے مسیحا۔۔۔۔۔!
تمھاری چوکھٹ پہ آ کے وحشت
سکوں کی چادر لپیٹتی ہے
تمھاری نظر کرم کی رحمت
بکھرتے جذبوں ، بکھرتے خوابوں کو
اک جگہ پر سمیٹتی ہے
مرے مسیحا۔۔۔۔!
حیات کیا ہے ،ممات کیا ہے
یہ آدمی گر تمام خلقت،
میں معتبر ہے تو کس طرح سے ۔۔۔۔!
میں اس خرابے میں اجلی سانسیں
اگر جو مانگوں تو کس خدا سے۔۔۔۔!
تمھاری قربت سے قبل مجھ کو نہیں پتہ تھا
مرے مسیحا۔۔۔! میں باطنی طور مر چکا تھا
مرے مسیحا ۔۔۔!
خزاں کے موسم میں میری خاطر دھنک بنے ہو
وہ جس نے میرے سفاک یاروں کے روشنی میں
دکھائے چہرے وہی دیئے ہو
تمھارا ممنون ہوں مسیحا۔۔۔۔!
کہ تم اندھیروں میں روشنی بن کے آ ملے ہو
مرے مسیحا ۔۔۔!
مری دعا ہے جہان فانی کے آخری روز کو بھی دیکھو
خدائے برتر سے زندگی کا ثبات پاؤ
مرے مسیحا مری دعا ہے
ہمیشگی کی حیات پاؤ
ہمیشگی کی حیات پاؤ
نوشیروان اسفند