ڈاکٹر سید زوار حسین

مسکرانا تحر یر :سید زوار حسین شاہ
مسکرانا فعل عبث نہیں فعل حرام نہیں کیونکہ حرام کا منہ کو لگنا اچھا نہیں ہوتا ۔ بہتر ہے کہ حلال وحرام کی تفریق کے بغیر مسکرایا جائے ۔اگر مسکراہٹ کو فعل نادان کہیں تو نادان کا کوئی بھی فعل قابل گرفت ہی نہیں ہوتا ۔ مسکراہٹ کو فعل شیطان کہنا بھی تو ٹھیک نہیں۔ البتہ قہقہےکے بارے میں کچھ نہیں کہا جا سکتا ۔مسکرانا قابل تعزیر جرم بھی نہیں مگر مغربی معاشرے میں ۔مسکراہٹ تو خود رو سبزےاور پھول کی مانند ہے جس میں تازگی اور طراوت ہوتی ہے اسے دانستہ افعال کے زمرے میں ڈالناٹھیک نہیں۔ مگر کیا کیا جائے جس کا کوئی ولی، وارث نہ ہو اسے کسی کے پلو سے بھی باندھ دیا جائے ، کسی کے کھاتے میں ڈال دیا جائے ۔ کون پوچھتا ہے ۔ لہذا زیادہ باریکی میں جانا اور مسکراہٹ کو فن و فلسفے کا درجہ دینا عام آدمی کی ضرورت ہی نہیں۔
یوں بھی ہم بہت سی باتوں اور گھاتوں کو جاننے کی کوشش کریں تو کامیاب نہیں ہو سکتے ۔مثلا ہمیں نہیں معلوم بندر مسکرا نے کی بجائے چڑاتے کیوں ہیں؟ ،جب گدھے آپس میں ملتےہیں تو مسکراہٹ کا تبادلہ بھی ہوتا ہے یا نہیں۔ بچے کھیلتے ہیں تو کودتےکیوں ہیں؟ بوڑھے جھگڑتے ہیں تو آخر کس سبب سے ۔قصائی میں قساوت کیوں ہوتی ہے؟ دکاندار میں لگاوٹ کیوں ہوتی ہے؟ کہانی میں کہاوت کیوں ہوتی ہے؟ پھر ہمیں یہ بھی تو نہیں معلوم کہ جب فرشتے مسکراتے ہیں تو اس وقت شیطان اور اس کے چیلوں چپانٹوں پر کیا گزرتی ہے یا پھر یہ کہ فرشتوں کی مسکراہٹوں میں ان کی باطنی خوشی بھی شامل ہوتی ہے یا طنز کی زہرناکی۔ پھر ایک اور سوال جنم لیتا ہے کہ فرشتوں کی مسکراہٹ کبھی قہقہے میں بھی تبدیل ہو پاتی ہے یا صدائے مجبور کی طرح گھٹ کر رہ جاتی ہے اور جب شیطان اپنے چیلوں کی کامیابی پر فاتحانہ قہقہہ بلند کرتا ہے تو اس لمحے فرشتوں کا رد عمل کیا ہوتا ہے۔ کہیں ایسا تو نہیں ہوتا کہ فرشتے شیطان کے قہقہوں پر خاموش تماشائی کی طرح بت بنے کھڑے رہتے ہیں یا کچھ کر گزرنے کا سوچتےہیں ؟اور فرشتوں کے بارے میں تو سنا ہے کہ فرشتے جذبات اور ذاتی کردار سے عاری مخلوق ہیں۔ زمین و آسمان میں خواہ کتنے ہی انقلاب کیوں نہ آجائیں وہ مظاہر قدرت کی طرح اپنی ڈیوٹی پر مامور رہتے ہیں ۔دنیا کچھ کی کچھ ہو جائے ان پر غزل کے محبوب کی طرح کچھ اثر ہی نہیں ہوتا بلکہ سامنے ہی نہیں آتے، ان کے کانوں پر جوں ہی نہیں رینگتی۔
فرشتے تو پاکیزہ اور نوری مخلوق پوتے ہیں وہ ہنستے تھوڑی ہیں۔
بھلے وقتوں کی بات ہے جب مسکراہٹ کو افادی فن کا درجہ حاصل نہ ہوا تھا مسکرا ہٹوں سے اقتصادی اور ازدواجی امور نہیں نمٹائے جاتے تھے اور انسان بھی فرشتے نہ ہوتے تھے صرف انسانیت اور آدمیت پر فخر کرتے تھے۔ اب ہم گلہ کرتے ہیں کہ کوئی مسکراتا نہیں ،کوئی قہقہہ نہیں ابھرتا ،کوئی کسی کے دکھ درد میں میں شریک نہیں ہوتا ،کوئی کسی کا ہاتھ نہیں بٹاتا، کوئی لٹتا رہے کوئی پٹتا رہے کسی کے کان پر جوں ہی نہیں رینگتی ، بات مسکراہٹ کی ہو رہی تھی کہ ہم کہاں سے کہاں تک جا پہنچے.
مسکراہٹ کے بارے میں ایک دانشور کا کہنا ہے کہ مریضانہ رویے کا نام ہے نہ یہ معلوم ہوتا ہے کہ کوئی ہنس رہا ہے اور نہ یہ معلوم ہوتا ہے کہ کوئی رونے کی مشقت میں مصروف ہے ۔ اس کے برعکس قہقہہ نعرہ مستانہ ہے۔ مسکراہٹ فسوں ہے، قہقہہ جوش جنوں ہے ،مسکراہٹ ٹھہرا پانی ہے، قہقہہ دریا کی روانی ہے ، مسکراہٹ میں طنز کی زہرناکی ہوتی ہے قہقہے میں لہجے کی بے باکی ہوتی ہے۔ آپ مسکراہٹ کو کلاسیکی شاعری اور قہقہے کو آزاد نظم یا اس کی نومولود بہن نثری نظم سے بھی تعبیر کر سکتے ہیں ۔کلاسیکی شاعری میں ،جس رکھ رکھاؤ او سلیقہ مندی ، بحر کی پابندی اور حزم و احتیاط کی ضرورت ہوتی ہے۔ اسے آپ غمگین مسکراہٹ کا نام دے سکتے ہیں اورآپ توجانتے ہیں مسکرا ہٹ میں ایمائیت ہوتی ہے، اشاریت ہوتی ہے ،اعجاز ہوتا ہے، اختصار ہوتا ہے، نہیں ہوتا تو حقیقت کا واشگاف اظہار نہیں ہوتا۔ اس کے برعکس نظم قہقہے اور نثری نظم بے ہنگم قہقہے کی مانند ہے، مسکراہٹ میں اعضاء کا توازن نہیں بگڑتا ، مسکراہٹ میں کسی عضو ضعیف کا خفیف سا فرق بھی نظر نہیں آتا ۔نہ آنکھ بند ہوتی ہے، نہ منہ کھلتا ہے ،نہ زبان باہر نکلتی ہے ، نہ ہاتھوں میں کپکپاہٹ، نہ دانتوں میں کٹکٹاہٹ، لیجیے مسکراہٹ ختم ہوئی۔اب قہقہے کو دیکھیے ، آنکھیں بند ہونے لگتی ہیں، ہاتھ حرکت کر رہے ہیں، آدمی ہے کہ خود بخودجھول رہا ہوتا ہے ،جبڑے یوں کھلتے اور بند ہونے کے قریب آتے ہیں جیسے آزاد نظم کی سطریں یکا یک طویل اور مختصر ہونے لگتی ہیں ۔پھر ایک مسلسل کھے کھے ہےہے۔ آپ چاہیں تو نثری نظم کی طرح اس میں آہنگ بھی ڈھونڈ سکتے ہیں اور ڈھونڈنے سے کیا نہیں ملتا۔
مسکراہٹ سچی ہو‏‏تو آسان، آپ دفتر میں مسکرا سکتے ہیں ،دفتر سے باہر، گھر میں ، گھر سے باہر،بازار میں چوک میں, سر راہ مسکرا ئیں, کوئی رکاوٹ نہیں, کوئی نہیں پوچھے گا کہ آپ کیوں مسکرائے البتہ آپ ایک لمحے کے لیے بھی بازار یا دفتر میں رو نہیں سکتے۔ادھر آپ نے رونا شروع کیا ادھر لوگ جمع ہونا شروع ہوگئے، کوئی اطمینان اور تسلی سے رونے بی نہیں دیتا۔ یا پھر آپ کا قہقہہ بلند ہوا بھرے بازار میں ،آپ نے ایک نہیں بلکہ دو چار قہقہے بلند کیے ،لوگوں کی بد ذوقی تو دیکھو ،کوئی آپ کو دیوانہ سمجھ رہا ہے ،کوئی مالیخولیا کا مریض سمجھ کر پھٹی پھٹی نظروں سے دیکھ رہا ہے۔ بجے بالے بھی بغور آپ کی حرکات و سکنات کا جائزہ لے رہے ہیں، ہر بام و در پر ناز نینوں کا ہجوم ہے ،سوچوں کے دھارے ہیں کہ سیدھے دل سے ٹکرا رہے ہیں۔ دوسری طرف مسکراہٹ کی بے اثری تو دیکھو کہ آپ سارا دن مسکرا تے پھریں کسی کے کان پر جوں ہی نہیں رینگتی۔
ہم کہہ سکتے ہیں کہ مسکراہٹ معصوم اورخود اختیاری جذبے کا نام ہے ،تو قہقہہ بے اختیاری کیفیت ہے ۔مسکراہٹ میں خودی اور خودنگری پنہاں ہوتی ہے، تو قہقہے میں بے خودی ہوتی ہے۔مسکراہٹ میں نازو انداز پوشیدہ ہوتا ہے، جبکہ قہقہہ ارد گرد سے حد سے گزری ہوئی بے نیازی کا نام ہے ۔مسکراتے ہوئے اردگرد سے بے نیاز نہیں ہوا جا سکتا یہ دیکھا جاتا ہے کہ محفل میں شریک لوگوں کی موجودگی میں مسکرانا بھی ہے یا نہیں۔یہی سبب ہےکہ عالم اور عام کی معافی اور مسکراہٹ میں فرق ہوتا ہے۔عامہ کو تو علم ہی نہیں ہوتا کہ بعض بعض مقامات اور مواقع پر مسکرانا خطرے اور خبث سے خالی نہیں ہوتا۔وہ تو یہ بھی نہیں جانتا کہ مسکراہٹ میں کیا کیا مصلحتیں اور مصیبتیں پنہاں ہوتی ہیں۔ مسکراہٹ کی حقیقیت سے تو عالم ہی آگاہ ہوتا ہے۔ وہ اہل دول ومنصب کی طرح مسکراہٹ کو باقاعدہ فن کا درجہ دیتا ہے۔ مثلاً یہ تو عالم ہی جانتا ہے: نیم تنہائی میں کم مسکرانا چاہیے، غسل خانے نہانے کی جگہ ہے مسکرانے کی نہیں۔ بزرگوں کی صحبت میں یا تو مسکراتے رہیں یا استغفار کرتے رہیں۔ورنہ بزرگوں کی عادتیں،اور عادات کسی کی بھی ہوں قابل گرفت نہیں ہونی چاہیں۔ ہمسائیوں سے مسکرا کر بات کرنے سے رعب ،رفو چکر ہو جاتا ہے۔دوستوں سے مسکرا کر بات کرنے سے شکوک وشبہات جنم لیتے ہیں اور کسی بھی شے کا جنم لینا خطرے اور خرابی سے خالی نہیں ہوتا۔ بیوی سے مسکرا کر بات کرنے سے گریز کریں ورنہ بیوی اور بہو کا فرق باقی نہ رہے گا۔ اگر کہیں خطاب کرنے کا موقع ہاتھ آئے تو غضب ناک ہو جائیں، قہر الٰہی بن جائیں شعلہ جوالا بن جائیں, طوفان بلا خیز کی صورت اختیار کر لیں ہرگز ہرگز نہ مسکرائیں ۔ ان بھیدوں سے گھر کے بھیدی کے سوا کوئی پردہ نہیں اٹھا سکتا۔ اور وہ ایک عالم الم رسیدہ کے علاوہ کوئی نہیں ہو سکتا۔

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *