ٹوبہ ٹیک سنگھ ۔تقسیم ہندپرایک شاہکار افسانہ
مشتاق کھرل
تقسیم ہند پر ویسے تو بہت سا ادب تخلیق ہوا لیکن منٹو کا افسانہ ٹوبہ ٹیک سنگھ قاری پر انمٹ نقوش چھوڑ جاتا ہے
یہ منٹو کے شاہکار افسانوں میں سے ایک ہے۔ مرکزی کردار بشن سنگھ جبکہ ثانوی کردار میں وکیل اور پروفیسر ہیں۔افسانہ تقسیمِ ہند پر ہے منٹو نے کھلے عام تقسیم کی مخالفت کی ہے۔ پورا افسانہ پاگل خانے میں دکھایا گیا ہے ۔ جتنے بھی کردار ہیں سب پاگل ہیں۔
بشن سنگھ ٹوبہ ٹیک سنگھ کا رہنے والا ہے اور اس کو ٹوبہ ٹیک سنگھ سے محبت ہے۔ ان پاگلوں میں ایک پاگل خود کو خدا سمجھتا ہے ۔ اور اس کا اعلان ببانگِ دہل کرتا ہے۔اس افسانہ میں بشن سنگھ کے ادا کردہ بعض جملے قاری کے دل کو دہلا کر رکھ دیتے ہیں ۔ جیسا کہ
ایک بار بشن سنگھ کہتا ہے
” مولبی ساب ! یہ پاکستان کیا ہوتا ہے؟ تو اس نے بڑے غور و فکر کے بعد جواب دیا : ہندوستان میں ایسی جگہ ہے جہاں استرے بنتے ہیں ۔”
اسی طرح بشن سنگھ نے فضل دین سے پوچھا :
“ٹوبہ ٹیک سنگھ کہا ں ہے ؟فضل دین نے قدرے حیرت سے پوچھا ،
وہیں جہاں تھا ،بشن سنگھ نے پھر پوچھا ، پاکستان میں یا ہندوستان میں ؟
ہندوستان میں ۔۔۔۔۔۔۔ نہیں نہیں ،پاکستان میں ، فضل دین بوکھلا سا گیا ۔”
افسانے میں ایک بے معنی سا جملہ منٹو بار بار دہراتا ہے۔ “
“اوپڑدی گڑگڑدی انیکس دی بے دھیانادی منگ دی دال آف دی لالٹین۔”
منٹواس جملے سے بار بار نیا مطلب لیتے ہیں۔ منٹو کے نزدیک یہ بٹوارا صرف لوگوں، سرحدوں یا زمینوں کا نہیں تھا بلکہ ذہنون اور دلوں کا بٹوارا تھا۔ جس کی مثال وہ پاگل وکیل کے کردار سے دیتے ہیں۔ جس کی محبوبہ امرتسر میں ہے اور وہ اس کے فراق میں پاگل ہے۔ منٹو اس کے فراق میں یہ ثابت کرتے ہیں کہ لوگوں کو تقسیم کرنے سے وہ دلی طور پر رنجیدہ ہوئے۔ مگر ہم منٹو پر کوئی اس کا الزام نہیں لگا سکتے کہ اس تقسیم کے کیوں خلاف تھے یا انہوں نے ایسا کیوں کہا۔ اب کیونکہ ادب معاشرتی رویوں کا عکاس ہوتا ہے جس پر مذہب کی چھاپ نہیں لگائی جا سکتی اور نہ ہی اس کو کسی ایسے میزان میں رکھ کر تولا جا سکتا ہے جس سے اس کی کوئی وابستگی ظاہر ہوتی ہو۔ کیونکہ ادب ان سب چیزوں سے ماوریٰ ہے۔ اور یہی وجہ ہے کہ ادب کا قاری اور خود ادیب کسی جذباتی وابستگی سے آزاد ہوتے ہیں اور اگر کوئی ادیب اس کا شکار ہو جائے تو پھر ایسے ہوتا ہے جس طرح اقبال کی شاعری کو لوگوں نے شاعرِ مشرق کر کے محدود کر دیا۔
ڈاکٹر غزالہ قا ضی کے مطابق:
“سعادت حسن منٹو کا افسانہ “ٹوبہ ٹیک سنگھ” بظاہر ہندوستان اور پاکستان
کے پاگل خانوں کے تبادلے کی کہانی ہے۔مگر دراصل منٹو نے تقسیم کے
نتیجے میں ہونے والی ہجرت اور دونوں ملکوں کی مضحکہ خیز پالیسیوں کو قلمبند
کیا ہے۔ انہوں نے اس کہانی میں انسان کی اپنی مٹی سے محبت کو بھی ظاہر کیا ہے۔”
افسانے میں بعض ایسے نازک معاملات آجاتے ہیں کہ اس وقت یہ فیصلہ کرنا کارِ دشوار ہوتا ہے کہ ہم اس کو مانیں یا نہ مانیں۔منٹو کا یہ افسانہ تاریخی حیثیت رکھتا ہے اور مصنف نے کرداروں کے مکالموں سے کہانی میں تاثیر پیدا کی ہے۔ اور جب کوئی مصنف کہانی کا تاثر کرداروں کے ذریعے پیش کرتا ہے تو اس کہانی کے کردار خود بخود اہمیت اختیار کر جاتے ہیں۔ بشن سنگھ کا کردار کئی سوال پیدا کرتا ہے اور کردار کی زبان سے بولے جانے والے مکالمات کہانی کی سمت طے کرتے ہیں۔
منٹو کا یہ افسانہ اس لیے بھی اہمیت اختیار کر گیا کیونکہ تاریخی حوالے سے اس وقت منظرِ عام پر آیا جب ہندوستان کی تقسیم کو زیادہ عرصہ نہیں گزرا تھا۔ اور دنیاوی ادب پر اس کے اثرات اس طرح مرتب ہوئے کہ اس میں نظریات کی پختگی کے ساتھ ساتھ بلاتفریق مذہب و ملت ، قومیت مصنف نے ایک ایسا نتیجہ اخذ کرنے کی کوشش کی جو ان کے دل کی آواز تھی۔ افسانے میں مقامی رنگ بھی دکھایا گیا ہے۔ جس طرح حالی نے شاعری کے بارے میں کہا تھا کہ شعر میں خط اور چوڑیوں کا ذکر نہیں ہونا چاہیے اسی طرح نثری حوالے سے بھی اپنی تحریر کو کسی مقام کے ساتھ منسلک کرنا ا س کو قدرے محدود کر دیتا ہے۔ مگر منٹو کی مجبوری تھی کہ انہوں نے نہ صرف شہروں کے نام بتانے تھے بلکہ وہاں کے مسائل اور لوگوں کے رویوں پر بھی تنقید کرنی تھی۔ افسانے میں واہگہ بارڈر، لاہور، ٹوبہ ٹیک سنگھ کے نہ صرف نام شامل ہیں بلکہ منٹو نے لاریوں، بسوں اور یہاں کی سڑکوں کے نام بھی افسانے میں شامل کئے ہیں جس سے افسانے میں سچائی یا حقیقت نگاری پیدا ہوئی۔یہی تلخ حقیقت نگاری اس افسانے کا طرہ امتیاز ہے اور اسی تلخ حقیقت نگاری پر منٹو دوسرے ادیبوں سے مختلف نظر آتے ہیں۔
بشن سنگھ کے کردار میں کہیں کہیں غیر حقیقی چیز یں بھی نظر آتی ہیں۔ جیسے کسی شخص کا کئی سال تک نہائے اور سوئے بغیر رہنا۔ مگر اس کردار سے منٹو جو قاری کو سمجھانا چاہتے ہیں اس میں وہ سو فیصد کامیاب ہوا ہے۔ بشن سنگھ کی بے چینی اور بے قراری ہی اس دور کا المیہ ہے کہ لوگوں کو اپنا گھر بار، مال اسباب چھوڑ چھاڑ کر کیسے کسی دوسری جگہ جانا پڑا۔ اس طرح کی ہجرت ہی انسانی المیہ ثابت ہوتی ہے۔ مگر اس ہجرت پر مستزاد یہ ہے کہ اس ہجرت کے دوران ہر دو اطراف سے لوگوں کو دیگر انسانی المیوں سے گزرنا پڑا۔
ٹوبہ ٹیک سنگھ انسانی رویوں کی نہ صرف ایک دستاویز ہے بلکہ ایسے تلخ حقائق کو بھی سامنے لاتا ہے جس کو ہم جان بوجھ کر فراموش کر دیتے ہیں۔