ڈاکٹر اسلم ادیب

افسا نہ
“یکتا ئی”
تحر یر: پرو فیسر ڈا کٹر اسلم ادیب
شہر میں سب سے پہلے 180سا لہ بو ڑھے کی آنکھیں اچا نک کُھلیں۔اُس نے دو با رہ آنکھیں بند کر کے دل کی دھڑ کنوں سے اندا زہ لگا یا کہ را ت کے تین بجے ہیں اور کو ئی عجیب حا دثہ ہو نے وا لا ہے۔اُس نے ٹیلی پیتھی کے ذریعے شہر میں سو ئے ہو ئے اور جا گتے
ہو ئے سینکڑوں ذہنوں میں جھا نکنا شرو ع کیا ۔سو نے وا لے خوا ب دیکھ رہے تھے۔ایک لڑ کی طلب کی لذ ت میں دریا میں کو د رہی تھی اور لذ ت کے احسا س میں مچھلی کی طرح تڑ پ رہی تھی۔ایک سو سا لہ خا تو ن خوا ب دیکھ رہی تھی کہ وہ را کھ کے ایک ڈھیر میں سو نے کی ایک مو رتی تلا ش کر رہی ہے۔ایک نو جو ا ن تن کے بند ھن میں سر شا ر خوا ہش کا بیج بو رہا تھا کہ وہ صبح سکو ن کی شرا ب سے نہا ئے گا۔ایک 120سا لہ نو جوا ن بیٹی کے پیٹ میں آٹھ ما ہ کے بچے کی نبض چیک کر رہا تھا۔وہ یہ سب دیکھ کر ہنس پڑا اور سو نے سے پہلے کے اپنے وا قعا ت ہا تھ میں لگی چپ کے ذریعے ذہن کی3D سکر ین پر دیکھنے لگا۔اُس نے چا ند پر کل Kimکے سا تھ پر لطف شا م کا منظر ذہن میں مو جو د الیکٹرا نک سِم سے نکا لا اور کا فی کے گر م کھو نٹ لیتے ہو ئے Kim کو دیکھنے لگا۔بو ر ہو کر اس نے اپنی Atomicمسہری کا ایک بٹن دبا یا اور North Poleپر مقیم دوست کو دیکھا جو یو سٹن کے ایک Casinoمیں ایک لا کھ Bit Coins کا دا ؤ لگا کرپُر امید بیٹھا تھا۔اُس نے چا ند پر اپنی بیوی سے را بطہ کر نا چا ہا مگر دیکھا کہ وہ ایک روبو ٹ کے سا تھ با ہوں میں با ہیں ڈا لے رقص کر رہی تھی۔پھر اُسے اچا نک خیا ل آیا کہ کل بہت اہم دن ہے ۔کیو نکہ زمین کی آدھی آبا دی کل مر یخ کی طر ف روا نہ
ہو جا ئے گی۔
وہ سو نے لگا تو اچا نک پھر کسی آنے وا لے خطرے کی بجلی اُس کے ذہن میں چمکی۔ وہ اُس خطرے کو تلا ش کر نے کی بھر پو رکو شش کر نے لگا ۔پہلے تو ایسا کبھی نہیں ہوا تھا ۔نظا م شمسی کے تما م سیا رے تسخیر کر نے کے سا تھ سا تھ مستقبل کی پو شید گیوں کو بھی فا ش کر دیا گیا تھا۔اُس بو ڑھے نے پر یشا نی میں Atomic Brainسے را بطہ قا ئم کیا اور مستقبل کے کسی خطرے کے با رے میں سوا ل کیا۔لیکن Atomic Brain خا مو ش تھا۔ وہ سینکڑ وں ذھنوں میں کو دا لیکن مستقبل کا کو ئی خوا ب کہیں نہیں تھا ۔وہ حیرا ن تھا کہ انسا ن کے علم میں پہلے سے آئے بغیر اِس کا ئنا ت میں کیا ممکن ہے۔وقت اور زند گی پر انسا ن کو مکمل کنٹر ول حا صل ہے۔ہم انسا نوں سے بڑ ھ کر تو اِس کا ئنا ت میں اب کو ئی طا قت نہیں ہے۔خدا اور محبت کی نفی کے بعد تو انسا ن قا درِ مطلق بن گیا ہے۔نفر ت اور جنگ ارتقا ء کا ذریعہ ہیں۔بو ڑھے کے چہرے پر ہلکی سی نفر ت زدہ مسکرا ہٹ نمو دا ر ہو ئی۔ اُس نے سو چا کہ نفر ت کھو ج لگانے پر اُکسا تی ہے۔ دو سرے کو
ب رد کر نے کی طا قت دیتی ہے۔اس طر ح تو آج انسا ن نے خدا کی خدا ئی کا بُت توڑا ہے اور ہم آزا د ہو ئے ہیں۔ایک کا میا
مسکرا ہٹ کے سا تھ اُس نے ہا تھ اٹھا کر انگڑا ئی لی اور اچا نک پھر اُس کے ذہن میں کسی آئندہ خطرے کا تیر پیو ست ہو گیا۔
بو ڑھے نے کسی خطرے پر زیا دہ سو چنا منا سب نہ سمجھا اور مشینی کر وٹ لے کر سو گیا ۔ابھی وہ خوا ب کا سہا را لے ہی رہا تھا کہ اُسے اتنا شد ید جھٹکا لگا کہ وہ بستر سے اچھل کر نیچے گر گیا۔سا ؤ نڈ پر وف کمرے کے با و جو د اسے ہلکی ہلکی آ وا ز یں سنا ئی دینے لگیں۔بو ڑھے نے
فو راً Atomic Brainسے را بطہ قا ئم کیا۔Atomic Brain مسلسل بو ل رہا تھاـ”زمین اپنے مدا ر سے ہٹ گئی ہے۔سو رج اپنی کشش کھو رہا ہے۔مر یخ اور زہرہ تیزی سے سو رج میں دھسنے وا لے ہیں۔اِس مکمل تبا ہی سے بچنا نا ممکن ہے”بو ڑھے نے فو راً
ڈو بتے دل کی دھڑ کنیںPace Maker سے نا رمل کیں اور اپنے گھر کی مشینی فضا سے نکلا۔با ہر آتے ہی بو ڑھے کو چیخو ں کا ایک
طو یل سلسلہ سنا ئی دیا۔عر یاں مر د اور عورتیں پا گلو ں کی طرح چیختے ہو ئے تفر یحی میدا ن میں جمع ہو رہے تھے۔تھو ڑی دیر بعد Atomic Brain نے اعلا ن کیا کہ تما م سا ئنسدا ن ز مین کو اپنے مدا ر پر بر قرا ر رکھنے میں نا کا م ہو گئے ہیں۔سو رج کی کشش ختم ہو
رہی ہے۔ زمین کی اپنی کشش اِسے ر یزہ ر یزہ کر نے وا لی ہے۔
اچا نک سو رج ز مین کے قر یب آگیا۔ایک زور دا ر دھما کے کے سا تھ سو رج کی تما زت بھر ی رو شنی ہر طر ف پھیل گئی۔را ت کا اند ھیرا دن کی ہز ا رگُنا رو شنی میں ڈھل گیا ۔یہ رو شنی نا قا بلِ بر دا شت تھی اور اِس کی شد ت میں جسم پگھلنے لگ گئے۔انسا نوں کے رُو پ میں
مو جو د لا کھو ں رو بو ٹ ریزہ ر یزہ ہو کر بکھر نے لگے۔سب نے بیک وقت سو چا کہ وا قعی یہ قیا مت ہے۔کسی نے مو ت کی آخری چیخ لیتے ہو ئے کہا”یہ قیا مت ہے”سب کے چہرو ں پر خو ف کی نیلی رو شنی پھیل گئی۔سب نے چیخ کر کہا “ہا ں یہ قیا مت ہے”بو ڑھے نے سو چا کہ اگر یہ وا قعی قیا مت ہے تو کیا خدا بھی مو جو د ہے۔اُ س نے فو راً مر تے ہو ئے لو گو ں کے ذہنوں میں اس کا جوا ب تلا ش کر نا
چا ہا۔مگر سب مر تے ہو ئے انسا نوں کے ذہن کہہ رہے تھے ۔نہیں یہ قیا مت نہیں ہے۔یہ نظا م شمسی کی شکست و ریخت ہے۔مگر سا تھ ہی سب ذہنوں میں ایک سوا ل تھا “ہم اب کیا کر یں؟”اس کا جوا ب کسی کے پا س نہیں تھا۔زمین اب سو رج سے بہت قر یب اُس کے
مدا ر میں لر زتی ہو ئی شکست و ریخت کے عمل سے گز ر رہی تھی۔اچا نک ایک گو نج کا شور بلند ہوا۔زمین کی اوپر کی تہہ اِس انتہا ئی تیز
گو نج کے سا تھ رو ئی کے گا لوں کی طر ح ریزہ ر یزہ ہو نے لگی۔لو گ ریزہ ر یزہ زمین میں در گور ہو نے لگے۔سب حا لت نز ع میں تھے۔جسم آنسو بہا رہے تھے ۔ہڈیا ں چو را چو را ہو رہی تھیں۔ہر طر ف خا مو ش چیخیں تھیں۔غر ض یہ کہ ز ند گی اور مو ت کے درمیا ن ایک
طو یل انسا نی شکست و ریخت کا عمل جا ری تھا۔
ؑعزرا ئیل نے اپنے پرو ں کو سمیٹا اور وہ حکم بغور سننے لگا۔
“تما م رو حیں ما دی خو ل سے نکا ل لو اور اپنے اصل کی طر ف لو ٹا دو۔سا ری کی سا ری رو حیں قبض کر نا اور سا تھ نہ رہے شیطا ن کی بھی”
عز را ئیل نے سو چا آج کھٹن مگر شا ید آخری مر حلہ آگیا ہے۔اُس نے دیکھا کہ زمین پر لو گ ایک غصیلے عذا ب میں مبتلا ہیں۔اُن کی زبا نیں خشک ہو کر سکڑگئی ہیں اور بدن کی ہڈیا ں ریزہ ر یزہ ہو نے لگی ہیں۔عزرائیل نے سو چا کہ میں جلدی سے ان کی رو حیں قبض کر لیتا ہوں اور پھر شیطا ن کی بھی۔لیکن یہ شیطا ن ملے گا کہاں۔عز را ئیل نے جو نہی یہ سو چا تڑ پتے انسا نوں کے در میا ن سے اُسے آوا ز آئی “میں یہاں ہو ں میرے بچے”عز را ئیل نے دیکھا کہ ایک عو رت کے تڑ پتے جسم کے سا تھ ایک بچہ بیٹھا مسکرا رہا تھا۔عز رائیل کے دیکھتے ہی وہ بچہ غا ئب ہو گیا اور ہر طر ف سے آوا زیں آنے لگیں کہ میں یہاں ہو ں۔عزرا ئیل چکرا کر رہ گیا ۔اُسے ہر انسا ن
شیطا ن کا عکس نظر آیا ۔شیطا ن ہر جگہ تھا۔پھر وہ اسے تلا ش کیسے کر ے۔کہاں اُس کی رو ح قبض کر ے۔عز را ئیل کو پہلی با ر اپنے کمز ور ہو نے کا احسا س ہوا۔جتنے عمل اُسے سکھا ئے گئے تھے اُس نے پڑ ھ ڈا لے لیکن شیطا ن اُس کے سا منے نہ آیا ۔آخر کا ر وہ ایک احسا سِ
ندا مت کے سا تھ وا پس لو ٹ گیا اور خدا کے سا منے اپنی بے بسی کا اظہا ر کر دیا۔
ایک کٹھن مر حلے سے گز ر کر جب عز را ئیل دو با رہ ز مین پر آیا تو اُس کے ذہن میں ایک وا ضع مستقبل کا را ستہ سجا تھا۔اُس نے سو چا کہ پہلے شیطا ن کو تلا ش کر کے بے رُوح کر نا چا ہیے ۔پھر سب جسمو ں کو سو رج کی آگ کے سپر د کر دیا جا ئے۔مگر وہ کیا کر ے آخری
مر حلے پر اُس سے کو ئی غلطی نہ ہو جا ئے۔عز را ئیل ان الجھنوں اور سو چو ں کے سا تھ ز مین پر روا ں دوا ں رہا ۔اُس نے دیکھا کہ چٹختے
انسا نوں میں ایک بھی نیک انسا ن نہیں تھا۔ایک بھی خدا کو ما ننے وا لا نہیں تھا۔دنیا میں ہر طر ف برا ئی اور نفر ت رہ گئی تھی۔ ہر طر ف
انسا نوں کے رُو پ میں شیطا ن ٹھا ٹھیں ما ر رہا تھا ۔عزرا ئیل کو معلو م تھاکہ اُس کا ایک عمل ان تما م انسا نوں کی رو حیں اِ ن کے تن سے جُدا کر دیگا۔اُس نے بے بسی سے تڑ پتے انسا نوں کے درمیا ن کھڑ ے ہو کر ایک نا قا بلِ بیان عمل کیا۔ز مین اپنا مدا ر آہستہ آہستہ تنگ کر نے لگی اور اچا نک شیطا ن مسکرا تا ہوا اُس کے سا منے آگیا “سنا ؤ عز را ئیل کیسے ہو”شیطا ن نے بڑی شفیق مسکرا ہٹ کے سا تھ
پو چھا۔عز را ئیل نے ایک ادا ئے بے نیا زی سے شیطا ن کو دیکھا اور کہا “تم جا نتے ہو میں کس لیے آیا ہوں”شیطان نے پُر سکو ن اندا ز میں کہا”میں جا نتا ہوں میرے بچے۔میرا محبو ب اب مجھ سے تنگ آگیا ہے”خبر دا ر! اپنی مکر وہ زبا ن سے خدا ئے بز رگ و بر تر کا نا م نہ لینا”عز را ئیل نے غصیلی آنکھو ں سے دیکھتے ہو ئے کہا ۔شیطا ن نے عز را ئیل کے غصے کی پر وا ہ کیے بغیر وہی شفیق مسکرا ہٹ بر قرا ر رکھی۔”میرے بچے !میں تمھا را سر دا ر ہوں۔مجھے خدا نے بے انتہا قو تیں دی ہیں۔میں اگر چا ہوں تو تمہیں ابھی ختم کر دو ں۔مگر میری تم سے کو ئی دشمنی نہیں ہے۔میری تو اُس آدم سے دشمنی ہے جس نے میرے محبو ب کو مجھ سے چھین لیا ۔”عز را ئیل اپنا فر ض ادا کر نے کے لیے آگے بڑ ھا۔مگر جیسے ہی عز را ئیل آگے بڑ ھا۔شیطا ن نے شفقت بھرا ہا تھ عز را ئیل کے شا نے پر رکھ کر کہا”سنو عز را ئیل۔
جا ؤاپنے آقا سے پو چھو کیا میں کبھی اُس کی ذا ت سے غا فل رہاہوں۔میں نے ہر وقت اُسی لا شر یک کا نا م لیا ہے۔بد لتے زمان و
مکا ں کے ایک ٹھہرے لمحے میں اُس نے ہم سب کا امتحا ن لیا تھا۔تم سب نا کا م ہو ئے۔صر ف میں اُس امتحا ن میں کا میا ب ہوا ۔کیا تمھیں یا د نہیں کہ خدا نے کر و ڑو ں سا ل کہا تھا کہ صر ف مجھے سجدہ کر نا ہے۔اور میں نے صر ف اسے سجدہ کیا ہے۔میں ایک کو سجدہ کر تا ہوں۔دو کو نہیں کر سکتا۔محبو ب ہمیشہ صر ف ایک ہو تا ہے نا”عز را ئیل نے تلخ لہجے میں کہا”میں تمھا ری وضا حتیں سننے نہیں آیا۔مجھے اپنا
فر ض ادا کر نے دو”شیطا ن نے نر می سے کہا “ٹھہر و عز را ئیل۔تم ظا لم بن رہے ہو۔
مجھ سے میرے محبو ب کی یا د نہ چھینو۔میرے پا س اُس کی ایک نشا نی رو ح ہی ہے۔ وہ مجھ سے نہ چھینو۔اُسے جا کر کہو کہ کیا اپنے چا ہنے وا لوں کے سا تھ وہ ایسا سلو ک کر تا ہے۔تم عز را ئیل!تم ظا لم نہیں ہو سکتے۔ابھی بھی سمجھ جا ؤ۔تم نے کتنے بچوں کو یتیم کیا ہے۔کتنی ما ؤ ں کی گو دیں خا لی کی ہیں۔تم کتنے ظا لم ہو اور خدا ظلم کر نے وا لوں کو معا ف نہیں کر تا ۔”عز را ئیل کے چہرے پر ایک رنگ آگیا لیکن اُس نے خو د کو سمیٹتے ہو ئے کہا “میں کچھ نہیں جا نتا ۔میں تو صر ف خدا کا حکم بجا لا تا ہوں”شیطا ن نے فا تحا نہ مسکرا ہٹ کے سا تھ کہا “سنو
نا دا ن بچے!وہ کہتا ہے ظلم نہ کر واور وہ تمہیں ظلم کا حکم دیتا ہے تو درا صل وہ تمہا را امتحا ن لیتا ہے۔اگر ایک با پ 50سا ل سے اپنے بیٹے سے کہے کہ میں صر ف تمہا را با پ ہوں اور پچا س سا ل بعد اچا نک ایک اور شخص کو سا منے کھڑا کر کے کہے کہ یہ تمہا را با پ ہے تو درا صل با پ تمہا را امتحا ن لے رہا ہے”عز را ئیل نے کشمکش کے عا لم میں کہا میں اب کیا کرو ں۔”تم آدم کو سجدہ کر نے سے انکا ر کر دو “شیطا ن کے چہرے پر شفیق مسکرا ہٹ کچھ او رگہری ہو گئی۔عز را ئیل کا سر غو ر فکر میں جُھک گیا۔شیطا ن نے پھر کہا “دیکھو میرے بچے۔مجھ سے
بڑ ھ کر اُس کا چا ہنے وا لا کو ن ہو گا ۔میں اپنے محبو ب کے برا بر آدم کو کیو ں لا تا۔ یہ آدم ہما ری محبت کا رقیب تھا۔آدم کے سا تھ ہی اِس امتحا ن کا وقت بھی اب ختم ہو نے وا لا ہے۔یہ آخر ی لمحہ ہے امتحا ن میں پا س ہو نے کا۔تم آدم کو سجدہ کر نے سے انکا ر ی ہو جا ؤ۔صر ف خدا ہی سجد ے کے قا بل ہے۔وہی اعلیٰ و بر تر ہے “عز را ئیل نے چیخ کر کہا “آدم ہما را رقیب تھا”شیطا ن کے چہرے پر مسکرا ہٹ مز ید
گہری ہو گئی”شا با ش میرے بچے۔صرف اپنے محبو ب کو سجد ہ کرو”اچانک ایک زور دا ر دھما کہ ہوا اور عز را ئیل کو اُٹھا لیا گیا ۔
ز مین لر زتے ہو ئے مز ید بکھر نے لگی۔ سمندر ز مین پر چڑھ آیا ۔پہا ڑ رو ئی کے گا لوں کی طر ح اُڑنے لگے۔زمین اور سو رج اپنے اپنے اندر دھسنے لگے ۔اس عمل کی گو نج سے کا نوں کے پر دے پھٹنے لگے۔لیکن سب لو گ زندہ تھے۔نہیں بلکہ مر دہ تھے۔نہیں ایسا بھی نہیں تھا۔وہ زند گی اور مو ت کے در میا ن جھُول رہے تھے۔اُن کے جسم چٹخنے لگے۔زبا نیں با ہر نکل آئیں۔اِ س صو رت حا ل میں شیطا ن ہذ یا نی قہقے اپنے گر د لپیٹنے لگا۔اُس نے چا روں طر ف ر یزہ ہو تے لو گو ں کو دیکھا اور اُن کی جا نب متحرک ہوا ۔اچا نک ایک مر د نے ایک عو رت کے جسم کو کا ٹا اور ابلتے خو ن کو دیوا نہ وا ر پینے لگا۔پھر تو سب لو گ وحشیوں کی طر ح ایک دو سرے میں پیو ست ہو نے
لگے۔شیطا ن ایک فا تحا نہ مسکرا ہٹ کے سا تھ یہ نظا رہ دیکھنے لگا۔
اگر شیطا ن تیزی سے نہ مڑ تا تو عز را ئیل اپنا فر ض پو را کر چکا ہو تا۔شیطا ن نے دیکھا کہ عز را ئیل کے چہرے پر غیظ و غضب کی بھٹی جل رہی تھی۔وہ سمجھ گیا کہ عز را ئیل مشیعت ایزدی کی سچا ئی اور فیصلے کی پختگی کے سا نچے میں ڈھا ل کر بھیجا گیا ہے۔لیکن پھر بھی اُس نے نر می سے کہا”کیا با ت ہے میرے بچے۔تم کچھ پر یشا ن نظر آرہے ہو””خبر دا ر! جو تم نے مجھے اپنا بچہ کہاتمہیں خدا نے اپنا حکم ما ننے کا کہا تھا۔مگر تم نے حکم ما ننے سے انکا ر کیا ۔تمھا رے انکا ر کی بڑی خو فنا ک سزا ہے”شیطا ن نے پر یقین اندا ز میں کہا “نہیں عزرائیل۔ اس سے بڑ ھ کر اور کیا سزا ہو سکتی ہے کہ اُس نے خو د سے مجھ کو دور کیا”عز را ئیل نے سبق آمو زجو ش سے کہا”خدا کا حکم ما ننا ہما رے نفس کی سا خت میں پنہاں کر دیا گیا تھا۔تم کہتے ہو کہ وہ تمھا را حا کم تھااور تمھا را محبو ب بھی۔تو سنو ! آدم کو سجدہ کر نے کا حکم بھی تمھا رے
محبو ب نے دیا تھا اور محبو ب کے حکم کو ٹھکر ایا نہیں جا تا”ایک لمحے کے لیے شیطا ن کی مسکرا ہٹ غا ئب ہو گئی۔عز را ئیل نے سکھا ئے
ہو ئے اعما ل کے سا تھ شیطا ن کے قر یب آتا گیا۔شیطا ن سلگتے انسا نوں کے درمیا ن دو ڑنے لگا۔سا ئنس دا ن ابھی بھی زمین کے
بچا ؤ کی تد بیر سو چ رہے تھے۔وہ اس اچا نک غیر منطقی کا ئنا تی تبد یلی پر حیرا ن تھے۔وہ ایک دو سرے پر شک کر رہے تھے کہ شا ید کسی نے چھپ کر کو ئی سا ئنسی تجر بہ کیا ہے۔لیکن ز مینی خدا ؤں کو کسی بھی طو ر آسما نی خدا کی طر ف دھیا ن نہ گیا۔اور اِسی بر زخ جیسی ز مین پر خدا کی دو عظیم مظا ہر کے در میا ن جنگ جا ری تھی۔شیطا ن اور عز را ئیل کے در میا نی فا صلے سمٹتے جا رہے تھے۔آ خر عز را ئیل نے شیطا ن
کو پکڑ لیا۔
شیطا ن وحشیا نہ اندا ز میں عزرا ئیل کو دیکھ رہا تھا۔شیطا ن نے گھبرا ہٹ میں چیختے ہو ئے کہا”سنو !مجھے نہیں معلو م وہ ایسا
کیوں کر رہا ہے۔مگر وہ اب سب کچھ ختم کر نا چا ہتا ہے۔یا د رکھو عز را ئیل! میں مر گیا تو سا را کچھ ختم ہو جا ئے گا۔اس کا ئنا ت
کی بقا مجھ سے ہے۔”عز را ئیل نے شیطا ن کی رو ح کے خیا لی ریشے الگ کر تے ہو ئے کہا “وہ خو د بھی یہی چا ہتا ہے۔اب تمھا رے
سا تھ یہ سب ز مینی شیطا ن بھی ختم ہو جا ئیں۔ شیطا نوں نے اس زمین کو نا پا ک کر دیا ہے۔تمہا رے سا تھ یہ بھی اب ختم
ہو جا ئیں ۔میرے خدا کو آدم سب سے زیا دہ عز یز تھا اور ہے۔مگر خدا کو ما ننے وا لا آدم۔تمہیں ما ننے وا لا نہیں”شیطا ن نے
اٹکتے سا نسوں کے سا تھ اوپر دیکھا اور کہا “کیا تم سب ختم کر دینا چا ہتے ہو۔سچ مچ ختم کر نا چا ہتے ہو ۔دیکھو میں سا را را ز
عز را ئیل پر فا ش کر دوں گا”شیطا ن نے دم تو ڑتی آوا ز کے سا تھ کہا “سنو عز را ئیل !وہ اپنے سوا سب کچھ ختم کر دینا چا ہتا
ہے ۔سب کچھ عزرا ئیل!تمہیں بھی،فر شتوں کو بھی اور اُن سب کو بھی جنہیں تم میں اور وہ دیکھ سکتا ہے۔تا کہ سا ری
رو حیں یکجا کر لے اور نقطہ آغا ز پر لے جا کر خو د کو مکمل کر کے اور جہان بنا دے”لیکن عز را ئیل نے بے اثری کا مظا ہرہ
کر تے ہو ئے اپنے عمل کا آخری قصہ اختتا م تک پہنچا یا اور شیطا ن کی بھا ری بھر کم روح کو او پر اچھا ل دیا۔عز را ئیل نے
تیزی سے کچھ اور عمل کیے جن سے تما م انسا نوں اور حیوا نوں کے جسم بے رو ح ہوکر تڑ پنے لگے۔ زمین تیزی سے سو رج میں
دھنستی چلی گئی اور یکے بعد دیگرے نظا مِ شمسی کے تما م سیا رے سو رج میں پیو ست ہو گئے۔اچا نک سو رج میں پر شو ر
دھما کہ ہوا اور وہ ریت کے ذروں کی طرح خلا میں ٹھہر گیا۔
عز را ئیل بلندی کی طر ف تیزی سے گا مز ن تھا۔وہ کا ئنا ت کی ہر چیز کو ریزہ ر یزہ ہو تے،ریز وں کو دھواں ہو تے اور دھو یں
کو تما م ہو تے دیکھتا جا رہا تھا۔وہ مطمئن تھا کہ اُس نے تما م رو حیں اپنے اصل کی طر ف لو ٹا دی ہیں اور شیطا ن کی بھی۔
وہ خو ش تھا کہ وہ شیطا ن کے بہکا وے میں نہیں آیا۔خدا سب ختم کر نا چا ہتا ہے تو کیا ہو ا ۔وہ جب چا ہے دو با رہ بنا
سکتا ہے۔میرا کا م تو اُس کا حکم بجا لا نا ہے۔اچا نک اُسے محسو س ہوا کہ اُسکی پر وا ز کی قو ت کم ہو رہی ہے۔اُس
کا جسم بے جا ن ہو رہا ہے۔وہ چیخ اُٹھا۔نہیں نہیں۔شیطا ن کے آخر ی جملے اُس کو یا د آنے لگے۔اُس کا جسم ربڑ
کی طرح پگھلنے لگا ۔اس نے بے بسی اور حسرت سے آسما ن کی طرف دیکھا۔دور اُسے کچھ مکمل ہو تا نظر آیا۔شا ید عز را ئیل
کی رو ح کا ملیت کا آخری پیو ند تھا۔

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *