نظم:
خشک گھاس کے نغمہ سرائی ڈاکٹر جواز جعفری
ہوا
شہر کے خد و خال مٹا رہی ہے
سرکشیدہ شہر
سڑکوں کے درمیان امڈ آیا ہے
اپنے میزبان کی حرم سرا میں نقب لگانے والا
لوگوں کے لیے سرخ لکیر بن گیا
لوگوں نے اس کی محبت میں شہر کو آگ لگائی
اور تاریک زندانوں میں جا بسے
جہاں بے گناہ خواب دان اسیری کے دن کاٹ رہے ہیں
بہار کا موسم شہر سے معزول کر دیا گیا
گلیوں میں
خشک گھاس کے لیے نغمہ سرائی جاری ہے
خدا سے بد عہدی کے جرم میں
لوگ اپنے چہرے گنوا رہے ہیں
میں اس بستی کا آخری آدمی ہوں
محافظ میری ہڈیوں سے
اپنے نیزے کی انی ایجاد کرتے ہیں
ان کے طلائی سر پوشوں پہ
میری بیٹیوں کے حصے کا سونا لگا ہے
لوگ قحبہ خانوں کی یافت سے
شہر کے چوک میں خدا کا گھر بنانے میں مصروف ہیں
وہ اپنی سیاہ قباؤں کے نیچے ہتھیار پہنے ہوئے ہیں
شہر کی گلیوں میں
قدیم گرجا گھروں کی راکھ اڑ رہی ہے
خدا اپنے لشکر سمیت پسپا ہو رہا ہے
یہاں آوازوں کا قحط ہے
لوگ
زندانوں کی چابیاں گلے میں آویزاں کیے
آزادی کا جشن منا رہے ہیں
یہاں ہر شخص اپنا زندان پہلو میں لیے پھرتا ہے
سلام ان چہروں پہ
جو غم زدہ شہر کی گلیوں میں تبسم بانٹنے ہیں
سلام ان ہاتھوں پر
جو اندھیروں میں چراغ ایجاد کرتے ہیں
سلام ان زبانوں پہ
جو بے نواؤں کی نمائندگی پہ مامور ہوئیں
میں نے افسردہ شاموں میں دریا کے کنارے نے نوازی کی
مچھلیاں میری تلاش میں کناروں سے آ لگیں
میں وہ ہوں
جس نے دیوتاؤں کو القاب عطا کیے
پرندوں کے گھونسلوں سے کبھی آگ نہ جلائی
پناہ گزینوں کو دشمن کے حوالے کرنے سے انکار کیا
اور گھات لگا کر عدالت کا سر شگافتہ نہ کیا
چراغ
میرا نسب جانتے ہیں