غزل
لے دیکھ ! میں نے اینٹ نہ گارا اٹھایا ہے
پھر بھی ستون دل کو دوبارہ اٹھایا ہے
گھر کے بڑے کو تو نے پکارا ہے نام سے
یعنی۔۔۔۔۔۔۔۔۔شجر کے سامنے آرا اٹھایا ہے
گلیاں بدل بدل کے بھی کھولی دکان دل
ہم نے تو ہر جگہ سے خسارہ اٹھایا ہے
ایسے نہیں سنبھلتے مچلتے ہوئے بدن
اک عمر ہم نے ہاتھ میں پارہ اٹھایا ہے
کھینچا ہے میں نے چاند کو کرنوں کی ڈور سے
دریا کو بھی پکڑ کے کنارہ اٹھایا ہے
سورج پہ ہاتھ ڈالنا مشکل نہیں مجھے
پلکوں پہ جب سے ایک ستارا اٹھایا ہے
کاندھے پہ جو سوار ہے بیٹا نہیں ، جناب!
پیری کا میں نے اپنی سہارا اٹھایا ہے
پھیلا ہے جب سے ذات کی تشہیر کا مرض
ہاتھوں میں سب نے اپنا نقارہ اٹھایا ہے
ذیشان تنگ آ کے خلا میں نہ پھینک دے
دھرتی نے بوجھ کب سے ہمارا اٹھایا ہے (ڈاکٹر ذیشان اطہر)
میرے خیال میں لفظ نَقّارَہ غزل کے دیگر ہم قافیوں سے ہم وزن نہ ہونے کی بنا پر مصرع کو لمبا کر رہا ہے