غزل ۔ ۔ ڈاکٹر شفیق آصف
زندگی کی رہگزر ہو اور تُو ہو
اور نہ کوئی ہمسفر ہو اور تُو ہو
تیرا پیکر ہو نظر کی دسترس میں
ایک میری چشمِ تر ہو اور تُو ہو
چاند میرے رتجگوں کا آئینہ ہے
آج پھر وہ جلوہ گر ہو اور تُو ہو
ختم بھی ہو ریگزاروں کی مسافت
کاش اپنا کو ئی گھر ہو اور تُو ہو
مُوئے خامہ خود تراشےخال وخد کو
کوئی ایسا بھی ہنر ہو اور تُو ہو
گفتگو کے پھول جاگیں آج آصف
میرے لفظوں میں اثر ہو اور تُو ہو