جس جگہ درہم و دینار بہت ہوتے ہیں
خود کشی کے وہاں آثار بہت ہوتے ہیں
ایسا لگتا ہے انہیں تیری نظر لگ گئی ہے
لوگ اب شہر میں بیمار بہت ہوتے ہیں
بند کر لیتے ہیں آنکھوں کو تری چھت کے قریب
کچھ پرندے بھی حیادار بہت ہوتے ہیں
ہم نے دشمن کو غلط سمجھا غلط فہمی میں
زخم دینے کے لیے یار بہت ہوتے ہیں
عزتِ نفس وہاں کوڑیوں میں بکتی ہے
جس جگہ صاحب دستار بہت ہوتے ہیں
شہرِ اُلفت میں ترا آنا مبارک ہو شکیل
ہاں مگر لوگ یہاں خوار بہت ہوتے ہیں
ڈاکٹر شکیل پتافی