میں۔۔۔۔پوری نہ تھی
بی بی ….ڈاکٹر صاحب کب تشریف لائیں گے ۔ اس نے پاس بیٹھی خاتون کو مخاطب کیا ۔ اے بہن ۔ کیا معلوم انہاں ڈاکٹروں کا اپنی مرضی سے آویں ہیں اور
اپنی مرضی سے جاویں ہیں مریض تو بیچارے یونہی پریشان پھرتے راہویں ۔ ہوں ۔ گلزار اٹھ کر عبد اللہ کو کندھے سے لگا کر برآمدے میں ٹہلنے لگی لیکن وہ بھوک
اور تکلیف کی وجہ سے بے کل تھا۔ مسلسل روئے جار ہا تھا۔ گلزار بار بار اس کی کمر پر ہاتھ پھیرتی ۔ کہتی چپ ہو جا۔ میرے بچے ایک لمحے کے لیے چپ ہو جا۔ بچہ چپ ہو
جاتا لیکن ایک دم چیخ مارکر بلک اٹھتا۔ اس کی چیخ کے ساتھ ہی گلزار کا سارا وجود لرز جاتا ۔ اور وہ بے دم سی ہو کر ڈول جاتی۔۔۔ اپنے بچے کے آنسو پونچھتی اور اسے
بہلانے کی کوشش کرتی مگر عبداللہ کیسے چپ ہوتا اس کے پیٹ میں بھوک کی آگ بھڑک رہی تھی ۔ جسم بخار سے جھلس رہا تھا۔ اور ماں بے بسی کی زندگی کے ہاتھوں لاچار
تھی ۔ وہ بار بار پھٹی پھٹی آنکھوں سے ڈاکٹر کے کمرے کی طرف دیکھتی اب چپراسی مریضوں کو باری باری پکار رہا تھا۔ ہر آواز پردہ پلٹ کر دیکھتی۔۔۔ کئی گھنٹے گزرنے پر
بھی اس کی باری نہ آئی۔ وہ دیکھ کر پریشان ہو رہی تھی کہ جو مریض بعد میں آئے تھے وہ چوکیدار کے قریب ہوتے اس کے ہاتھ میں نوٹ تھماتے اور ڈاکٹر کے پاس چلے
جاتے ۔ اس کی ٹانگوں نے جواب دے دیا اب وہ برآمدے میں ٹہلنے کی سکت بھی نہ رکھتی تھی ۔ وہ واپس آکر بینچ پر بیٹھ گئی ۔ تھوڑی دیر میں ایک صاف ستھری لڑکی آکے اس
کے پاس بیٹھ گئی ۔ وہ دل ہی دل میں پریشان تھی کہ خدایا یہ کیسی خاتون ہے جسے مجھ سے بو نہیں آرہی ہے ۔ میرے ساتھ جڑی بیٹھی ہے ۔ کچھ لمحوں بعد اس لڑکی نے عبداللہ
کی طرف دیکھا اور اس کی ماں سے پوچھا یہ بچہ اس قدر کیوں رو رہا ہے ۔ کچھ دیر تو خاتون خاموش رہی پھر بولی ۔ بی بی ۔ کئی روز سے بھوکا ہے۔ میں اسے تھوڑی تھوڑی
دیر بعد پانی پلا دیتی ہوں ۔ مگر اس کی بھوک کہاں مٹتی ہے۔ روئے گا نہیں تو کیا کرے گا ۔۔۔تم اسے اپنا دودھ پلاؤ….. اپنا دودھ تو اس کے جنم دن ہی سوکھ گیا تھا۔۔۔ہم بھی
تو بھوکے ہیں۔ دودھ کہاں سے پلا ئیں۔ اس کا باپ مرگیا۔ اوہو۔ اس نے دیکھا اس لڑکی نے چادر کے نیچے سے اپنی قمیض کے بٹن کھولے اور اس سے عبد اللہ کو
لے کر اپنے سینے سے چمٹا لیا۔ عبداللہ چپ ہو گیا۔ گلزار حیرت سے اس کی جانب دیکھتی رہی ۔ مگر رشیدہ کسی بات کی پرواہ کیے بغیر عبداللہ کی بھوک مٹنے تک اسے اپنے
سینے سے لگائے بیٹھی رہی۔۔۔ اور خاص پر سکون احساس پر وہ زیر لب مسکرا رہی تھی ۔ عبد اللہ جب سیر ہو گیا تو اس نے چادر کے اندر سے منہ نکالا تو ہنس رہا تھا۔۔۔ ماں دل
ہی دل میں خوش تھی کہ چلو میرے بچے کا پیٹ پھر گیا۔ مگر وہ شدید پریشانی کے عالم میں رشیدہ کو تک رہی تھی اتنے میں عبداللہ کی باری آگئی ۔ ڈاکٹر نے چیک کیا اور
دوائیوں کی لمبی لسٹ گلزار کے ہاتھ میں تھما دی۔ وہ پر چی لیے باہر نکلی اور انگلیوں میں پر چی مسل کر وہیں پھینک دی ۔۔۔منہ میں بڑبڑاتے ہوئے ، دوا کہاں سے لوں گی۔ وہ
آگے کی طرف چل پڑی ۔ رشیدہ جو ساتھ والے کمرے میں لیڈی ڈاکٹر سے مل کر باہر آچکی تھی اس نے گلزار کو بوجھل بوجھل قدم اٹھا کر چلتے دیکھا تو اس کے قریب ہو کر
بولی ۔ یہ لو پچاس روپے ۔ رکشے کا کرایہ اور چھ کھانے کے لیے لے لینا۔ کرایہ ۔۔۔کہاں جاؤ گی … بس یہی شہر میں جانا ہے۔۔۔ جب سے یہ بچہ ہوا ہے اہل خاندان
نے مجھے گھر سے نکال دیا ہے۔۔۔ کیوں اس کا باپ اس کے پیدا ہونے سے پہلے ہی مر گیا تھا۔ اور انہیں یہ اعتبار نہیں کہ یہ بچہ اسی کا ہے۔۔۔ میں بے گھر ہوں ک۔۔۔کسی نہ کسی
کو بھی پر کام ڈھونڈتی ہوں ۔ مگر عبد اللہ کی بیماری کی وجہ سے مجھے چھٹی کرنی پڑتی ہے اور وہ میری چھٹی کرادیتے ہیں ۔ آج کل کہاں کام کر رہی ہو ۔ پچھلے ہفتے سے فارغ
ہوں ۔ اوہو ۔ سنو تم میرےساتھ چلو ۔۔۔ آپ کا گھر کہاں ہے؟ میرا گھر نہیں ۔ میں ور کنگ وویمن ہاسٹل میں رہتی ہوں۔۔۔ تم میرے ساتھ رہ سکتی ہو۔ رشیدہ گلزار کو اپنے
ساتھ اپنے کمرے میں لے آئی۔۔۔ اس نے فریج میں سے کچھ کھانا نکالا ۔ اور پھر وارڈ روب کھول کر ایک پرانا سوٹ نکالا۔ گلزارتم نہا کر یہ کپڑے بدل لو میں اتنی دیر میں
کھانا گرم کرتی ہوں ۔ دونوں نے مل کر کھانا کھایا۔عبداللہ نرم بستر پر مزے سے سورہا تھا۔ رشیدہ نے مسکرا کر اس کی طرف دیکھا۔ اور بولی صبح بازار سے اس کے لیے
کپڑے خرید کر لائیں گے ۔ گلزار اسے تشکر یہ نظروں سے دیکھتی رہی ۔ کھانے سے فارغ ہو کر رشیدہ نے دونوں مسہریوں کو ساتھ جوڑ لیا کہ کہیں عبداللہ نیند میں نیچے نہ گر
جائے ۔ گلزارتم بجلی کا بٹن بند کر دو۔ زیرو کے بلب کی روشنی میں وہ ایک دوسرے سے اپنے ماضی کی باتیں کرنے لگیں ۔ گلزار نے ڈرتے پوچھا۔ بی بی ۔ آپ یہاں ہاسٹل
میں رہتی ہیں۔ آپ کے میاں۔ رشیدہ طنزیہ مسکراہٹ کے ساتھ ہوں کہہ کر پلٹی۔۔۔میاں۔۔ بھئی میں غیر شادی شدہ ہوں ۔ ارے باپ ۔ آپ غیر شادی شدہ ہیں اور
تمہاری چھاتیوں میں دودھ ۔ ہاں ۔ ہاں میرے مولا ! نے تیرے بچے کے دودھ کا انتظام ادھر کر دیا۔ میرا بچہ تو دنیا میں آنے سے پہلے ہی ختم ہو گیا ۔۔۔کیسے۔۔۔محبت
کے اظہار کے خوف سے ؟ اے بی بی ۔ آپ کیسے بولو ہو ۔ ہماری سمجھ میں کچھ نہ آوے۔۔۔گلزار بستر میں اٹھ کر بیٹھ گئی اور حیرت سے رشیدہ کو تکنے لگی ۔۔۔ رشیدہ نہایت پرواہی سے بولی۔۔۔
تیرے پاس بچے کے باپ کی شناخت ہے۔ مگر اہل خانہ نے
تمہیں ٹھکرا دیا۔ میرے پاس محبت کے نام پر بے شمار لوگوں کے چہرے، ان کے لفظ میری ذات کا حصہ بنتے رہے مگر میرے وجود میں پلنے والے وجود کو ہمیشہ بے نام کر دیا
گیا۔ ۔۔کیونکہ ان سب سے میرا رشتہ بے نام تھا۔ اے باپ ۔ کیسی باتاں کرے ہیں۔۔۔ ہاں گلزار ۔ میری تعلیم ، میرے حسن اور میرے عہدے نے سب کو متاثر کیا ۔ مگر
میں کسی کے لیے قابل قبول نہ تھی کیوں؟ کیوں کہ میں پوری نہ تھی ۔ ۔۔یہ کہہ کر اس نے اپنا دایاں ہاتھ اوپر اٹھایا تو اس کی انگلیاں ٹیڑھی تھیں پھر اس نے اپنی شلوار کا
پائنچہ او پر کیا اور دکھایا ۔ کہ دیکھو میری ٹانگ بھی ٹیڑھی ہے ۔ مگر آپ ایسی دکھو تو نہ ہو۔ ہاں میں بائیں ہاتھ سے لکھتی ہوں اور سنبھل کر چلتی ہوں ۔ مگرکسی بھی بستر پر میرا راز
راز نہیں رہتا۔ بیوی ہونے کے لیے لڑکی کا پورا ہونا ضروری ہے . بہت ضروری۔۔۔ اتنے میں عبد اللہ کی آنکھ کھل گئی . وہ ہر بڑا کر ادھر ادھر دیکھنے لگا۔ پہلے
اس کی طرف اور پھر رشیدہ کی طرف ۔ مگر جلدی سے کروٹ لے کر وہ رشیدہ کے سینے سے لپٹ گیا۔