ڈاکٹر نجیب جمال
:جہاں آباد کی گلیاں –ایک تجزیہ:
(اے خوئے اجتناب!تعلق کہیں تو رکھ)
:ٹوٹی ہوئی طناب ادہر: (2019) اور :دشت امکاں : (2021) کے بعد ::جہاں آباد گلیاں : (2023) اصغر ندیم سید کا تازہ ترین ناول ہے –یہ تینوں ہی ناول آزاد تلازمہ خیال کی تکنیک میں لکھے گئے ہیں جن میں خیال کی سلسلہ در سلسلہ صؤرتیں کہانی در کہانی دکھائی دیتی ہیں –ان تینوں ناولوں کے بارے میں ابتدائی طور پر دو تین باتیں بنیادی نوعیت کی ہیں ایک تو ان ناولوں کے مرکزی شہر بالترتیب ملتان ،لاہور اور لندن ہیں –مگر ان شہروں سے جڑے کتنے ہی شہر اور ممالک اور بھی ہیں جو وقت کے دھارے میں کہانی سناتے دکھائی دیتے ہیں-دوسرا ان ناولوں میں راوی ایک ہی ہے جس پر مصنف کی اپنی ذات کا پر تو غالب دکھائی دیتا ہے-
:دشت امکاں: میں البتہ آنس کی بیوی جو خود بھی کہانی کار ہے آنس سے زمان و مکاں سے باہر اس کے خیالوں اور خوابوں، اس کی ماضی کی یادوں اور تاش کے پتوں کی طرح پھینٹی گئی اس کی یاداشتوں کے بارے میں استفسار تو ضرور کرتی ہےمگر اصل راوی آنس ہی ہے جو زمانوں اور مہ و سال کی گرداشتوں سے باہر آچکا ہے یہ راوی پہلے دونوں ناولوں میں ایک مورخ اور تیسرے ناول یعنی : جہاں آباد کی گلیاں : میں ایک سیاسی جلا وطن ہے مگر ان تینوں ناولوں میں تاریخ کے الجھے ہوئے تاروں کو سلجھا کر کہانی کی شکل دی گئی ہے یہ ظاہر ہے کہ مشکل مرحلہ تھا خاص طور پر اس صورت میں کہ طویل سر گزشت کی ترتیب بگڑ چکی ہو ، خواب اور حقیقت کا فرق مٹ چکا ہو ،زمانوں کی سرحدیں ختم ہو گئی ہوں ،پرانے شہر نئے شہروں میں گم ہو چکے ہوں تو ایسی صورت میں تاریخ کے گھونسلے سے کب، کہاں اور کون سی حکایت ٹپک پڑے اس کا اندازہ خود کہانی کہنے والے کو بھی نہیں ہوتا-یوں کہانی در کہانی کی سی صورت جنم لیتی ہے تاہم کہانی کے دوسرے کنارے پر تاریخ اور تاریخ کے بطن سے پیدا ہونے والا عنصر شور ،سیاسی ،و سماجی عمل اور اس کی سفاکی ،غیر جمہوری قوتوں کا جبر،حالات کے دباؤ کاشکار ے بے بس و مجبور
لوگ ،ادب ،فنون سور علوم کی آگاہی سے پیدا ہونے والی گوارائی واضح طور پر دکھائی دیتے ہیں – ایسے لوگ پکارتے جاتے ہیں ،ہمت ہارتے جاتے ہیں ،تہ کو سدھارتے جاتے ہیں مگر دریا ہے کہ موجیں مارتا جاتا ہے –
اصغر ندیم سید کے تینوں ناولوں بالترتیب تہذیبی ،ادبی اور سیاسی فضا کو سماجی حقیقتوں سے ہم آہنگ کر کے ایک ایسی کتھا ترتیب دیتے ہیں جس میں کہیں رزمیے کا سا طنطنہ اور کہیں غنائیے کی سی موسیقی جنم لیتے ہیں اور یوں جدید زمانے کے فرد کی بے چین زندگی اور اس کی مضطرب روح کے گھاؤ ایک ایک کر کے ظاہر ہوتے ہیں –
ناول”جہاں آباد کی گلیاں” کا عنوان فیض صاحب (جن کا نرم گرم اور تلخ شیریں تذکرہ ناول میں بار بار آتا ہے ) کے پسندیدہ شاعر میرزا محمد رفیع سودا کے ایک شعر سے اخذ کیا گیا ہے – وہ شعر ہے
کہیں مہتاب نے دیکھا ہے تجھ خورشید تاناں کو
پھرے ہے ڈھونڈتا ہر شب جہاں آباد کی گلیاں
یہ بھی دلچسپ بات ہے کہ اس سے پہلے تسلسل کے ساتھ لکھے گئے دونوں ناولوں ”دشت امکاں ” اور ” ٹوٹی ہوئی طناب ادہر” کے عنوان بالترتیب غالب اور اقبال کے اشعار (ہے کہاں تمنا کا دوسرا قدم یا رب/ہم نے دشت امکاں کو ایک نقش پاپایا) ،(بجھی ہوئی ہے آگ ادہر، ٹوٹی ہوئی طناب ادہر/کیا خبر اس مقام سے گزرے ہیں کتنے کارواں ) سے اخذ کیے گئے ہیں اور یہ تینوں اشعار اٹھارہویں ،انیسویں اور بیسویں صدی کے تہذیبی ،سیاسی ،سماجی اور تاریخی شعور کے حامل ہیں –سودا کی ”جہاں آباد ” سے مراد اٹھارہویں صدی کی دہلی ہے جسے شاہ جہاں آباد بھی کہا جاتا تھا اور جو ہوتے ہوتے ”جہاں آباد ”رہ گیا- جہاں سر آسماں کئی چاند تو چمکتے ہی تھے مگر وہاں کا خورشید بھی جہاں تاب تھا کہ دلی کے نہ کوچے تھے اوراق مصور تھے جو شکل نظر آئی تصویر نظر آئی –اسی ” جہاں آباد ”کو پھر میر و سودا نے خرابہ بنتے بھی دیکھا –
اب خرابہ ہوا جہاں آباد
ورنہ ہر ایک جاپہ یاں گھر تھا
اور لو گوں کو کہتے سنا کہ
گزروں ہوں جس خرابے سے کہتے ہیں واں کے لوگ
ہے کچھ دنوں کی بات یہ گھر تھا وہ باغ تھا
اصغر ندیم سید کے ناول کا جہاں آباد اسی کی دہائی کا لندن ہے جس کی گلیاں ،کوچے اور بازار پاکستان سے جلا وطن کیے گئے افراد کا ٹھکانہ تھے- یہ وہی لوگ تھے جنہیں طیارہ اغوا کیس کے بعد تاوان کے طور پر پاکستان کی جیلوں (ان میں سے کچھ لاہور کے شاہی قلعے کے عقوبت خانے میں رکھے گئے تھے)رہا کر کے لندن بھیجا گیا تھااور جنہیں وہاں کی حکومت نے سیاسی پناہ دی تھی-ان میں دو معروف شاعر فارغ بخاری اور شہرت بخاری بھی تھے –آخر الذکر کو ان کی گرفتار بیوی کے کہنے پر ساتھ بھیجا گیا تھا- لند ن میں کچھ جلا وطن سیاست دان پہلے سے موجود تھے تاہم ان کی جلا وطنی خود عاید کردہ تھی-انہوں نے پاکستان کے پہلے منتخب وزیر اعظم ذوالفقار علی بھٹو کو تختہ دار پر کھینچے جانے کے بعد کسی ممکنہ عتاب سے بچنے کی خاطر اور کسی اچھے وقت کا انتظار کرنے کےلیے حفظ ماتقدم کے طور پر یہ خود ساختہ جلا وطنی اختیار کر رکھی تھی –یہ سب ذوالفقار علی بھٹو کے ساتھی وہ سیاست دان تھے جو منیر نیازی کی نظم کی معنویت پر پوری طرح عمل پیرا تھے –بھٹو صاحب کےلیے ان کی محبت بھی سیاست دوراں کی مثال سے کچھ زیادہ نہ تھی-
ستارے جو دمکتے ہیں کسی کے چشم حیراں میں
ملاقاتیں جو ہوتی ہیں جمال ابرو باراں میں
یہ نا آباد وقتوں میں ،دل نا شاد میں ہو گی
محبت اب نہیں ہو گی ،یہ کچھ دن بعد میں ہو گی
گزر جائیں گے جب یہ دن ،یہ ان کی یاد میں ہو گی
”جہاں آباد کی گلیاں” جلا وطنی کے دنوں کی کہانی ہے یوں ناول کا مرکزی موضوع سیاست اور اس کے کچھ کردار ہیں –ناول کی کہانی کا تانا بانا ذوالفقار علی بھٹو کی پھانسی اور اس کے مابعد اثرات اورخاص طور پر اسٹیبلشمنٹ کے شاید سب سے زیادہ متنازعہ ( مکروہ) کردار جنرل ضیاء الحق کے گرد بنا گیا ہے –ارسطو نے بوطیقا——میں لکھا تھا کہ ٹریجیڈی کے ہیرو میں کہیں کوئی ایک کم زوری یا سقم ہوتا ہے کہ اس کے ارادے یا فیصلے کی شعوری غلطی اس کی بربادی کا سامان بن جاتی ہے –پاکستان کے پہلے بتیس سال کی تاریخ کی ایک بڑی ٹریجیڈی نے اس وقت جنم لیا جب وزیر اعظم ذوالفقار علی بھٹو نے اپنے صوابدیدی اختیار کو استعمال کرنے میں غلطی کی اور اس وقت کے سات سینئر جنرلوں پر ایک جونیئر جنرل کو آرمی چیف بنایا-1977ء میں اسی جنرل نے سیاسی صورت حال کی ابتری کا بہانہ بنا کر مارشل لا لگایا،اپنے محسن وزیر اعظم کو نظر بند کیا اور خود اس سے ملاقات کرنے اور یہ یقین دہانی کرانے پہنچ گیا کہ یہ سب اس نے حالات کی نزاکت کو دیکھتے ہوئے حفظ ما تقدم کے طور پر کیا ہے –اور یہ کہ نوئے دن میں انتخابات ہوں گے وہ اور ان کی جماعت انتخاب جیت کر دوبارہ بر سر اقتدار آسکتے ہیں –ذوالفقار علی بھٹو کا جواب تھا کہ پاکستان کے دستور کی شق چھے میں کسی طالع آزما کے دستور سے ماورا کسی بھی کاروائی کی سزا متعین ہے-یوں آئین کا مدعا اور اپنا ارادہ ظاہر کرنے کی غلطی نے ایک عمومی تاثر کو پیدا کر دیا کہ پھندا ایک ہے اور گردنیں دو ہیں تو پھر کیسے ممکن تھا کہ صاحب اقتدار اپنا اختیار استعمال نہ کرتا یہیں سے ٹریجیڈی کے ہیرو کے مصائب و آلام کا سلسلہ شروع ہوا جب پاکستان کے قیام کے صرف بتیس سال بعد سیاسی نظام کو ایک دہائی سے زیادہ لمبی مدت کےلیےدوسری مرتبہ آگے بڑھنے سے روک دیا گیا- اس کے ساتھ ہی سماجی ناانصافیوں کا ایک نہ ختم ہونے والے سلسلے کا آغاز ہوا-عدلیہ جیسے سماجی انصاف فراہم کرنے والے ادارے کو بے بس کر دیا گیا –قانون ساز ادارے کو ختم کر دیا گیا –اخبارات پر سنسر شپ عائد کر دی گئی اور انہیں سچ کی اشاعت سے روک کر پروپیگنڈا کا ذریعہ بنا دیا گیا-جبر کے اس ماحول میں پرندوں کے اپنے گھونسلوں میں دم گھٹنے کی ہچکیاں سنائی دینے لگیں –
ناول کے بارے میں کہا گیا ہے کہ یہ زندگی کی حقیقت آمیز فضا کو ایک تسلسل کے ساتھ قائم رکھتا ہے-”جہاں آباد کی گلیاں” کی فضا میں گھلی ہوئی اداسی پورے ناول کا مزاج متعین کر دیتی ہے کہ اس شام کا کاجل بھی بہت پھیل رہا تھا دیکھیے ”تین اپریل کی شام اب رات میں بدل رہی تھی اور کسی کو معلوم نہیں تھا یہ رات جو اتر رہی ہے یہ کتنی طویل ہوگئی-”کہانی کاروای جو خود بھی ناول کے مرکزی کردار کے طور پر دکھائی دیتا ہے –فضا کے بوجھل پن کو دور کرنے لارنس گارڈن کارخ کرتا ہے اسی رات اس کی بیوی سرکاری ہسپتال میں ایک بچے کو جنم دیتی ہے-رات اسی ادھیڑ پن میں آنکھوں نکل جاتی ہے صبح کی روشنی میں وہ اندرون لاہور کے بچوں کی پیدائش کےلیے مخصوص ہسپتال سے باہر آتا ہے تو دیکھتا ہے کہ ”اچانک ایک بزرگ نما شخص زور زور سے چیخ رہا تھا اور سر پر دو ہتڑ مار کر بین کرتا جارہا تھا”بھٹو کو پھانسی ہو گئی ،بی بی سی کی خبر ہے-ظالموں نے بھٹو کو مار دیا-بھٹو کی پھانسی عین اس وقت ہوئی جب اس کہانی کے راوی کا بیٹا پیدا ہوا-
”میں نے دیکھا دن بھر لوگ مختلف جگہوں پر ٹکڑیوں میں کھڑے تھے-مکمل خاموشی تھی-بس ٹریفک کا ہلکا شور تھا اس روز کوئی بھی گھر سے نکلنا نہیں چاہتا تھا-میں خود اس منظر نامے کا حصہ نہیں بننا چاہتا تھا کہ عین وہ وقت جو ذوالفقار علی بھٹو کی پھانسی کا وقت تھا اس کے ادھر یا پھر ادھر میرا پہلا بیٹا اور پھر اکلوتا بیٹا پیدا ہوا تھا- میں بیٹے کی خوشی میں ضرور تھا لیکن ایک ملال جو بھٹو صاحب کے جانے کا نہیں تھا کہ میں تو ان سے صرف دوبار ملا تھا ملال ان کے بعد کے زمانے کا تھا-
بھٹو کی پھانسی کے فورا بعد یہ تاثر ایک ایسے نو آموز شاعر کا ہے جو لاہور کے پاک ٹی ہاؤس میں اٹھتا بیٹھتا ہے-جہاں بیٹھنے والے انقلابی ترقی پسند پاکستان میں ویسے ہی انقلاب کے منتظر تھے جو مغرب کے بعض ملکوں میں آچکا تھا-یہ انقلابی ترقی پسند فرانزفینن،مارکس،پابلو نرودا ،ناظم حکمت اور بر یخت کا تذکرہ تو کرتے تھے مگر خود کسی ایسے انقلاب کا عملی طور پر حصہ بننے کے لیے آمادہ نہیں تھے-انہیں معلوم تھا کہ لاکھوں لاشوں پر انقلاب کا پھر یرالہراتا ہے-یہاں ناول نگار فیض صاحب کے حوالے سے نہ صرف ایک تلخ حقیقت کو سامنے لاتا ہے بلکہ ان کی شاعری کے مزاج کو بھی ایک مختلف زاویے سے دیکھتا ہے-ناول میں فیض صاحب کے بارے میں آگے چل کر بھی مختلف النوع آرا کا حوالہ بار بار آتا ہے مگر یہاں تو فیض سے عمومی پسندیدگی کے خیال کو لمحہ بھر کےلیے ایک طرف رکھ کر معروضی پیرایہ اختیار کیا گیا ہے:
”فیض احمد فیض تو ہمارے لیے ایک رومانی شاعر سے زیادہ نہیں تھے-وہ تو بعد میں ان کی بیٹیوں ،دامادوں اور اہل خانہ کے ساتھ متمول لاہور کی اشرافیہ نے اپنے ضمیر کا کفارہ ادا کرنے کےلیےانقلاب کا استعارہ بنا دیا ورنہ فیض صاحب تو معصوم ،دوگھونٹ لے کر اپنی شاعری سنا کر بس اتنا کہتےتھے کہ”بھئی ہم سے انقلاب کی توقع رکھیں نہ ہم سے جدوجہد کی مشقت طلب کریں –بوڑھا جسم اب مار نہیں کھا سکتا” یہ انہوں نے انگریزی میں کہا تھا جب ضیا الحق کے زمانے میں لندن جانے سے پہلے ضیاالحق سے ملاقات کر کے واپس آے تھے”