سمیعہ سعد تصوف کی نوجوان مصورہ
تحریر:مشتاق کھرل
ایک وقت تھا جب تصویروں کو زبان ملی تھی لیکن پھر وہی زبان زمان و مکاں کے تغیر میں ایک مرتبہ پھر خاموش ہو گئی۔مادیت پرستی کی زیریلی ناگن نے رو حانیت سے جڑُی ہر انمول چیزکو ڈس لیا۔دنیاپرو فیشنلز م سے سے پہلے پرائیو یٹائزیشن کی طرف چلی گئی۔اور اب اسکا سفر کمر شلائزیشن کی طرف رواں دواں ہے۔دنیا میں خوبصورتی اور جمالیات کے پیمانے یکسر بدل چکے ہیں۔آرٹ ، ادب ، موسیقی اور فنون ِ لطیفہ کی دوسری تمام اضاف اپنے وجود کی جنگ لڑ رہی ہیں
نفسانفسی اور مختلف تہذیبوں کی کشمکش کے دورمیں اب بھی کچھ آرٹسٹس کا دعویٰ ہے کہ ان کی تصو یریں بولتی ہیں۔ان میں ایک نام نو جوان آرٹسٹ سمیعہ سعد کا بھی ہے۔گڑیوں کے ساتھ کھیلنے کے اپنے وقت میں اس نوجوان آرٹسٹ نے وہ فن پارے تخلیق کیے ہیں جو عمر کی پختگی کا نچوڑ ہوُا کرتے ہیں۔خود ان کا کہنا ہے کہ رنگوں سے کھیلنا ،لکیریں کھینچنااور اس عمل سے زندگی کو سمجھنے کا اپنا ہی مزا ہے۔انہوں نے جہاں کینوس پر پورٹریٹ ،پرانی عمارتیں ،دروازے اور محرابیں بنائی ہیں وہیں چھوٹے پھتروں پر منی ایچرنگ بھی کی ہے۔
جو کام سمعیہ سعد کو باقی مصوروں سے ممتاز کرتا ہیاسے انھوں نے “کینوس سے باہر” کا نام دیا ہے ۔اس میں انھوں نے مختلف دھاگوں، رسیوں اور جالیوں کے ٹکڑوں سے کام لیا ہے۔اور کہیں کہیں برش اور رنگ بھی مدد کو آئے ہیں۔ دراصل ان میں کچھ نہ کچھ پوشیدہ رکھا گیا ہے۔اور اسی سے زندگی کے ان چھپے ہوئے حصوں کی طرف اشارہ کیا جاتا ہے جو ہم پر اثر انداز ہو رہے ہوتے ہیں۔کینوس پر آپ منظر کی اتنی ہی تصویر بناتے ہیں جتنا وہ منظر آنکھ میں سماتا ہے۔باقی کینوس سے باہر رہ جاتا ہے۔
سمیعہ سعداس تناظرمیں خوش قسمت ہیں کہ انہوں نے جس گھرانے میں آنکھ کھولی وہاں علوم و فنون کے قدر دان پہلے ہی مو جود تھے۔ان کے والد عزیز الرحمن ریڈیو پاکستان سے منسلک رہے۔ پھر سونے پہ سہاگہ اس وقت ہوا جب انکی شادی عظیم دانشوور افسانہ نگار حمید شاہد کے بیٹے سعد حمید سے ہوئی۔جہاں ان کے فن مصوری کو نکھرنے کا اور بہتر مو قع ملا ۔ادب اور مصوری ہمیشہ سے ساتھ ساتھ چلتے رہے ہیں۔ حمید شاہد صاحب کے گھر کے ادبی ماحول اور بیرونی دنیا سے گہرے رابطوں کا سمعیہ سعد کو بہت فائدہ ہوا۔
چند روز قبل مادری زبانوں کا قومی میلہ پاکستان کو نسل آف آرٹس اسلام آبادمیں منعقد ہوا۔ انڈس فورم نے جہاں پورے پاکستان سے مختلف زبانوں کے ادیبوں ، دانشوروں ، شاعروں اور افسانہ نگاروں کومدعو کیا وہاں گیلری کو سعدیہ سعد کی پینٹنگ سے مزین کر کے میلہ کی رعنایوں میں کئی گنا اضافہ کر دیا ۔ میں جب اس گیلری میں پہنچا تو مجھے تصویروں اور مصور کی عمروں میں صدیوں کا فرق نظر آیا ۔ کہاں وہ جدید دنیا کی فیشن پرست اور انٹر نیٹ کی دنیا میں غرق لڑکیا ں اور کہاں یہ ننھی مصورہ جو ابھی ابھی نشنل کالج آف آرٹس سے فارغ التحصیل ہوئی ہیں ۔ میرے ایک سوال پر انکا کہنا تھا کہ وہ اپنی مصوری کے ذریعے اپنی تہذیب اور ثقافت نہ صرف زندہ کرنا چاہتی ہیں بلکہ نو جوان نسل کو ان سے متعارف کروانا چاہتی ہیں ۔ ان کے پاس اپنے اسلاف سے حقیقی محبت کا ذریعہ ہی ان کا برش ہے۔
جو چیز آپ کو سمعیہ سعد کی مصوری میں سب سے زیادہ کشش کر یگی وہ تصویر کے اندر چھپی ایک داستان ہے۔ گہری معو نیت سے بھر پور انکی ہر ایک تصویر نہ صرف بولتی ہے بلکہ آپ سے باتیں بھی کرتی ہے۔وہ اپنے دورکی طرف لے جاتی ہے۔ایک لمحہ کے لیے آپ حال کی دنیا سے نکل جاتے ہیں اور ماضی کی ان وادیوں میں کھو جاتے ہیں جہاں اسلاف کی میراث پڑی ہے۔وہ تصویر ایک شاہکار نہیں ہے بلکہ احیاء ِعلوم و فنون کی ایک سعی ہے۔جس کا آغاز نسل نو نے کر دیا ہے۔ ہمارہ تمام سرمایہ ِحیات یہیں پڑا ہے۔ مغرب کی تقلید صرف اور صرف ہمیں اندھیروں کی طرف دھکیل رہی ہے۔
یاد رکھیں کہ سمعیہ سعد بھی اسی فضا میں سانس لے رہی ہے جہاں ‘‘ میرا جسم میری مر ضی ’’ کے نعرے نوجوان طالبات کو گمراہ کر رہیے ہیں۔ شکوہ ِ ظلمت ِ شب کی بجائے اپنے حصے کے دیے جلاتی یہ مصورہ حکومتِ وقت سے داد ِ تحسین کے مستحق ہیں ۔ جہاں خوب رو ادا کاروں کو صدارتی ایوارڈ اور تمغہ ِحسنِ کارکردگی دیا جا رہا ہے وہاں سمعیہ سعد اسکی حقیقی مستحق ہے۔ آخر کوئی تو آگے بڑھے گا اور آرٹ کی سرپرستی کریگانہیں تو پھر ہماری تہذیب و ثقافت قدیم داستانوں میں ملے گی۔
عصرِحاضرمیں نوجوانوں کاتصوف کی طرف رجحان ایک روشن مستقبل کی علامت ہے۔سمیعہ سعد کی مصوری میں تصوف کا رنگ غالب ہے۔ صوفیہ کرام اور تصوف کے شاعروں کی تصاویر نے تو چونکا کر رکھ دیا ۔اتنے خوبصورت اور دلفریب انداز میں جوعکاسی کی گئی ہے یہ مصورہ کی صلاحیتوں کا منہ بولتا ثبوت ہے۔ مصورہ کا برش جس طرح کی مصوی کے لیے رواں ہو چکا ہے امید تو ہے کہ مصورہ عرصہ قلیل میں پاکستان کی صف اول کے مصوروں میں شامل ہو جائیگی۔ ان کا حوصلہ جزبہ اور لگن اس بات کا ثبوت ہیں کہ مصوری ان کا صرف شوق نہیں بلکہ پیشن ہے۔وہ اسے اپنا مقصد ِحیات سمجھتی ہیں۔
پچھلی چند دہائیوں میں سابقہ تمام حکومتوں بشمول موجود ہ حکومت نے ادب اور فنون لطیفہ کی سر پرستی سے اپنا ہاتھ اٹھا لیا ہے۔ ادب اور آرٹ کے فروغ کے مرکزی ادارے جن میں اکادمی ادبیات اورادارہ مقتدرہ اردو کافی عر صہ سے بے یارومدد گار چلتے رہے۔اب بھی کچھ اداروں کو ان کے سرپرست نصیب نہیں ۔ مو جودہ حکومت سے ادیبوں اور فنکاروں کو بہت امیدیں وابستہ تھیں جو اب دم توڑ رہی ہیں۔ ادیبوں ،فنکاروں اور مصوروں کی حوصلہ افزائی ان کی روحانی غزا ہوتی ہے۔ اور کبھی کبھی جسمانی غزا کی تنگی بھی ادب اور ادیب دونوں کو متاثر کر تی ہے۔ گذشتہ دنوں علی یاسر جیسے نوجوان شاعر کی اچانک موت نے کئی سوالات اٹھا دیے ہیں ۔اگر ہم نے ادب اور آرٹ کو زندہ رکھنا ہے تو ہمیں اپنی تر جیحات بدلنی ہو نگی۔ معاشرے کے اس حساس ترین طبقہ کو نظر انداز کرنا دراصل اپنے قومی اور مذہبی اقدار کو نظر انداز کرنے کے مترادف ہے۔نو جوان شاعروں با لخصوص مصوروں کے کاموں کو منظر ِ عام پر لانے کے لیے ہر مکتبہ فکر کے لو گوں کا اپنا حصہ ادا کرنا ہو گا۔ الیکٹرانک اور پرنٹ میڈیا اس ضمن میں قلیدی کردار ادا کر سکتے ہیں اور کافی حد تک کر بھی رہے ہیں۔