غزل
تخلیق _ توانا سے جہاں جاگ رہا ہے
میں ہوں ، مرا انداز _ بیاں جاگ رہا ہے
جذبے ہیں مرے آج بھی اس بات کے شاہد
آنکھوں میں کوئی خواب_گماں جاگ رہا ہے
جو سو گئے ، وہ سو گئے آغوش _لحد میں
نازاں ہوں مرا ، نام و نشاں جاگ رہا ہے
بے چارے غریبوں کی کمائی تو یہی ہے
جو کچے گھروندوں میں دھواں جاگ رہا ہے
اس گھوراندھیرے میں ہےکس شخص کی آمد
یہ کس کے لئے شعلہ ء جاں جاگ رہا ہے
آصف مرے افکار علامت ہیں سحر کی
شعروں میں مرے ، عصر _رواں جاگ رہا ہے
(پروفیسر ڈاکٹر شفیق آصف)
چیئرمین شعبہ اردو / ڈین فیکلٹی آف سوشل سائنسز
یونیورسٹی آف میانوالی