اظہر ادیب

(اظہر ادیب)
پہلے ہمیں اک دشت میں لایا جانا ہے
پھر کوئی اقرار کرایا جانا ہے

بستی والو ! آنکھیں کھول کے سونا تم
اس شب یہ مہتاب چرایا جانا ہے

ہمیں خبر ہے اس ہجرت کے بعد ہمیں
آبادی سے دور بسایا جانا ہے

اک دیوار کے گرنے پر افسردہ ہو
ابھی تو دل کا شہر گرایا جانا ہے

طے ہو گا کچھ اور ہمارے بارے میں
لوگوں کو کچھ اور بتایا جانا ہے

سزا تو میری لکھ دی ہے اس منصف نے
اب تو صرف الزام لگایا جانا ہے

اب ساری صبحیں دفنائی جانی ہیں
اور پہرے پر سانپ بٹھایا جانا ہے

اس کا حکم ملا ہے آنکھ نہ کھولی جائے
شاید کوئی خواب دکھایا جانا ہے

اظہر بازو کٹ جانے کا رنج نہیں
مشکیزے پر تیر چلایا جانا ہے

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *