نظم:
دنیا پیر تسمہ پا ہے ڈاکٹر جواز جعفری
حیف اس شہر پر
جس کے داخلی رستوں پہ مہکتے باغوں کو
خزاں نے آ لیا
اور افسانوی عمارتوں کے منقش ستونوں کو
فنا کی دیمک کھا گئی
میرے سنگ میل ریزہ ریزہ ہو گئے
میری پناہ گاہیں بے اماں ہوئیں
میرے ہرے جزیرے سرخ پانیوں کا رزق بن گئے
شہر کی بوڑھی فصیل کو
کسی مغرور خواجہ سرا کی اندھی فوج کی
یورش کا سامنا ہے
قتل گاہوں نے
ہمارے سروں کے نذرانے قبول کرنے سے انکار کر دیا
میرے الاؤ کی کہانی بجھ گئی
تنہائی
میرا بستر لپیٹنے پہ مصر ہے
اس گلابی عورت نے
رخصت ہوتی شام کے کنارے
مجھے سیاہ گلاب کا تحفہ دیا
اور زمین کے آخری کناروں کی طرف پرواز کر گئی
اس خوش بیان کے روبرو
میرے نطق کا چراغ بجھ گیا
میرے چاروں اور
دیپک کے سروں کی بارش ہونے لگی
میں نے اپنی باقی عمر
ان خد و خال کی تلاوت میں بسر کی
اور اپنا چہرہ نسیاں کے طاق پہ رکھ دیا
اسے رخصت ہوتے دیکھ کر
میرے آنسو
انکھ کی پچھلی جانب گرنے لگے
وہ سر سبز عورت
سرمہ بن کر میری آنکھ سے بہہ گئی
میں نے اپنے لیے ہجر کا لباس چنا
خواب گاہ میں شطرنج کی بساط بچھائی
اور وقت کے جواری کی پوشیدہ چالوں پہ غور کرنے لگا
میں نے اپنے اندر
جستجو کا الاؤ پھر سے روشن کیا
اور دنیا کی طرف پیٹھ کر لی
دنیا
پیر تسمہ پا بن کر میری پشت سے لپٹ گئی
میں اس کا چہرہ دیکھنے سے قاصر رہا
میں نے دنیا کو پاؤں کی ٹھوکر پر رکھا
اور آرزو کے سامنے ڈھیر ہونے سے انکار کر دیا
میں نے اخری بار
اپنی پیٹھ پہ سوار دنیا پر نظر کی
اور کائناتی سیاحت پر روانہ ہو گیا