رسماً ہی نبھانا تھا
گھر کون سا جانا تھا
دیوار مقابل تھی
دکھ جس کو سنانا تھا
پیدا کیا، تو کیا اب
زندہ دفنانا تھا؟
وہ مجھ میں فنا تھا اور
میں ایک زمانہ تھا
ملنا تو مقدر تھا
قصداً ترا جانا تھا
لبریز تغافل سے
ترا ملنا ملانا تھا
دنیا بڑی دیکھی، تو
شاطر جُداگانہ تھا
جا جا بڑا آیا تو!
کل تک جو فُلانا تھا
حائل مرے رستے میں
ترا سینے لگانا تھا
الزام تو نہ دیتا
یارانہ پرانا تھا
کوئی حد ہی بتا دیتے
بڑھ حد سے جو جانا تھا
تم سرقہ کئے جاتے
ہمیں لٹنا لٹانا تھا
مری دیدہ دلیری میں
ترا سجنا، لجانا تھا
باز آنا پڑا مہنگا
عادت میں گراں نہ تھا
جسے اپنا بنایا تھا
جگ اس کا بنانا تھا
شام~ انکے توصل سے
مجھے رب کو منانا تھا
(علی شام~ لاشاری)