منصور آفاق

جمہوریت کے تھوڑا پیچھے رہ،مارشل لا
مت اپنی گفتگو میں کشمیر و کارگل لا
خود آپ اِک اکیلا اپنا منا جنم دن
بھیجا ہوا خود اپنا چل آپ پارسل لا
اپنی لحد سے باہر میں پھر نکل نہ آئوں
جاکر ذرا کہیں سے مضبوط ماربل لا
پیاسا بہت سہی میں اتنا نہیں ہوں لیکن
شاید شراب ہے یہ، جا، پانی نارمل لا
اِس بار ووٹ بابا، دینا نہیں ہے میں نے
بھیجے ہزار من خواہ جاگیر دار غلہ
دن بھر بہار ِکوئے جاناں میں گھومنے کو
قوسِ قزح سے کوئی رنگوں کا سائیکل لا
قانون اپنے کیا ہیں طاقت کے دست وپا ہیں
نیکی بدی کے شاید، ہیں چند نیچرل لا
یہ مسئلہ ہے اپنی سانسیں جڑی ہوئی ہیں
جو قابلِ عمل ہو ایسا کہیں سے حل لا
نازک مزاج ہوں میں، تُو جانتی ہے خانم
بجلی چلی گئی ہے جلدی سے مورچھل لا
پستول کی ابھی تک وہ رینج سے ہیں باہر
نیچے سے جا کے فوراً خود کار رائفل لا
۔
لا وصلِ سرمدی لا، امکانِ عزوجل لا
یا موت کی گھڑی کا بہتر کوئی بدل لا
آغاز کی خبر دے، انجام جانتا ہوں
یہ ساعتِ ابد لے، لا ساعتِ اَزل لا
یہ دستِ زندگی ہے اِس کو فنا کہاں ہے
اے لمحۂ قیامت ! جا پنجۂ اَجل لا
جلتے ہوئے تھلوں میں اک دوڑتی اداسی
کہتی ہے اونٹنی سے واپس مرا پنل لا
دے دیں گے ہم کسی کو یہ تاج و تخت ورنہ
ہر آدمی غنی ہو وہ لائحہِ عمل لا
منصوؔر پتلیاں ہیں ہم تو تماشا گر کی
خاموش بھی من اللہ، پُر جوش بھی من اللہ
٭
میرے مقابلے میں مت میر ؔکی غزل لا
وہ اردوئے معلی، میں اردوئے محلہ
اکیسویں صدی کا گمنام سا میں شاعر
اُس پر بچھا رکھا ہے افرنگ میں مصلیٰ
میری کہاں ہے ممکن تقریبِ رونمائی
میرے کلام سے ہے خالی ہر اک مجلہ
شاعر نہیں ہیں صاحب! یہ لوگ مسخرے ہیں
دربارِ درد و غم میں مت لطفِ بیربل لا
سُر تال جانتی ہے یہ رات کی خموشی
تُو چاند کے گھڑے پہ بے گُر نہ مار چھلا
منصورؔ جنگ سچ کی ہارا نہیں مگر میں
سایہ فگن ہیں پنجتن رحمت فگن ہے اللہ

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *