ایک خیال
خدا جانے
دل کے سکڑتے رگ و پے میں
کتنی سکت رہ گئی ہے
یہ ممکن ہے میرے معالج کو معلوم ہو
اور وہ کہہ سکیں کہ مرے ہاتھ میں
کتنی مہلت بچی ہے
اگر زندگی ریزگاری کی صورت میں ہے
تو خدا جانے اب کتنے لمحوں کی پونجی ہے
چھیدوں بھرے اپنے کِیسے میں باقی
خدا جانے لکھنے لکھانے کی ہمت ہے کب تک
لکھت میں کوئی جان ہو یا نہ ہو
مجھ کو تو یہ خبر بھی نہیں ہے
خدا جانے آہستہ آہستہ بے جان ہوتی زباں
گفتگو کے اسالیب پر
کتنے دن اور قادر رہے گی
خدا جانے اظہاری قدرت کا معیار کیا ہو
ان ایامِ بے اعتباری میں
دل کو مناسب تو ایسا ہی لگتا ہے
مَیں لکھ ہی دوں جو بھی لکھنا ہے
کہہ ڈالوں جو کچھ بھی کہنا ہے
بہتر یہی ہے
مَیں کاہے کو سب کچھ
اسی تنگ پڑتے ہوئے دل میں رکھوں
کن اچھے دنوں کے تسلسل کی امید پر؟
مجھ کو ہر اَن کہے اپنے موقِف سے
اور اَن لکھی اپنی رائے سے ڈر لگتا رہتاہے
میرے مضافاتِ دانش میں
تعبیر کی ایک تاریک تاریخ ہے
اورتحریف کی بھی روایت
مفادات کے پختہ سانچوں میں ڈھل کر
رسوخِ عقائد کی سرحد پہ خیمے لگائے
کمر بستہ ہو کر پڑی ہے
مری بات بہتر ہے مَیں خود وضاحت سے لکھوں
مری بات بہتر ہے مَیں خود صراحت سے کہہ دوں
معین نظامی
۲۲- جولائی ۲۰۲۴ء