اک خواب ہے جہاں میں کوئی آشنا ملے
خالص ہو چاہے تھوڑی سی ہم کو وفا ملے
کرتے رہیں گے شاعری ہر اک جنم ہم
ہر بار ہم کو بے وفا بھی آپ سا ملے
مقدار تھوڑی پیار میں اس کو کہاں قبول
جو چاہتا ہو رنج بھی بے انتہا ملے
سانپوں سے بچ کے مجھ کو نکلنا ہے ایک بار
سیڑھی تلک پہنچنے کا بس راستہ ملے
اس سے کہو الجھنا نہیں مجھ سے ابکی بار
رستہ الگ ہو دریا کا یا مجھ سے آملے
جاری رکھو ستم کہ پیاسا بہت ہے دل
ہو ختم یہ محبت اتنا دغا ملے