الزام بے وفائی کا دھر تو نہ جائیں گے
تیرے بغیر ہم کہیں مر تو نہ جائیں گے
دیکھا ھے مفلسی نے مرے گھر کا راستہ
پھیلانے ہاتھ پر ترے در تو نہ جائیں گے
مجرم ہیں ہم ضرور اگرچہ وفاؤں کے
وعدوں سے ہم بھی اپنے مکر تو نہ جائیں گے
اس بے وفا کا کیسے کریں اعتبار ہم
اب ہم بھی بار بار ادھر تو نہ جائیں گے
اب سوچتے ہیں تم سے ملاقات کے بغیر
دریا محبتوں کے اتر تو نہ جائیں گے
افشاں سحر